آزادجموں و کشمیر حکومت کایوم تاسیس

October 21, 2019

تحریر: سردار عبدالرحمٰن خان۔۔۔بریڈ فورڈ
24اکتوبر کو آزاد جموں و کشمیر حکومت کا یوم تاسیس ہے۔ آزادی کشمیر کی جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے۔ بہت سے مورخین وثوق سے یہ دعوے کرتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کی قدیم تاریخ کی چار ہزار سال قبل از مسیح تک نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ کشمیر کی قدیم تاریخ جو بھی ہے اور جیسی بھی ہے وہ اپنی جگہ ایک الگ حقیقت ہے مارڈرن تاریخ کے اوراق سے بھی ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں بہت سے تاریخی پہلو اور سیاسی حالات ملتے ہیں۔ کشمیر میں مختلف مذاہب کے لوگ مدتوں سے باہمی اتفاق سے رہتے رہے ہیں۔ پہلے ہندوئوں اور بدھ مت کی اکیس پشتوں نے 14ویں صدی تک حکمرانی کی، پھر اس کے بعد مسلمانوں نے 18 پشتوں تک حکمرانی کی۔ مسلمانوں کے دور حکومت میں آسودگی اور وقار نے جنم لیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے ریاست جموں و کشمیر میں479سال تک حکومت کی۔ ان میں سے240سال تک کی مدت کے لیے ریاست جموں و کشمیر مکمل آزاد اور خودمختار حکومت تھی۔ کشمیری مسلمانوں کی آزادی اس وقت ختم ہوئی جب1579ء میں مغل بادشاہ اکبر نے ریاست جموں و کشمیر کو فتح کرکے قبضہ کرلیا۔ مغلوں کے زوال کے بعد افغانی کشمیر پر حملہ آور ہوئے، انہوں نے قبضہ جماکر67سال تک جموں و کشمیر پر حکمرانی کی۔ افغانی حکمران ظالم حکمران تھے۔ انہوں نے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے اور کشمیر غربت اور خستہ حالی میں مبتلا ہوگیا۔ پھر سکھوں کو موقع ملا۔ 1819ء میں سکھوں نے افغانیوں کو شکست دی اور خود نئے حکمران بن گئے، پھر جب سکھوں کو برطانوی نوآبادیاتی طاقت کی طرف سے پنجاب میں شکست ہوئی تو ان کا27سالہ دور حکومت کشمیر میں ختم ہوگیا۔ اس طرح ریاست جموں و کشمیر برطانیہ کے پاس چلی گئی۔ برطانوی حکومت خود کشمیر میں براہ راست حکومت کرنے سے گریزاں تھی۔ وہ دور دراز علاقوں اور پہاڑوں میں ملوث نہیں ہونا چاہتے تھے اور پھر مالی طور پر بھی پہلوتہی کررہے تھے۔ اس لیے برطانوی حکومت نے کشمیر کو ایک ڈوگرہ گلاب سنگھ کے ساتھ سودا کرکے کشمیر کو75لاکھ نانک شاہی روپے میں بیچ دیا اور برطانہ نے کشمیریوں پر ڈوگرہ راج مسلط کردیا۔برطانوی حکومت نے کشمیر کا سودا کرنے کے بعد بھی اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے گلاب سنگھ سے ایک معاہدے کے ذریعے ہر سال ایک گھوڑا، بارہ انگورہ بکریاں (چھ مادہ اور چھ نر) اور دو شالیں تاوان کے طور پر وصول کرنا شروع کیں۔ یہ ڈوگرہ راج اس وقت ختم ہوا جب ریاست جموں و کشمیر کے مجاہدوں نے لمبی جدوجہد کے بعد1947ء میں کھلی بغاوت کرکے ڈوگرہ راج کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا۔ ہری سنگھ اس وقت کا ریاستی مہاراجہ بھاگتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ سازباز کرکے اور ایک عارضی معاہدے کرکے کشمیر سے غائب ہوگیا۔ یہ نقطہ انتہائی دلچسپ ہے کہ برٹش ایمپائر کا ہندوستان میں خاتمہ ہوا تو ریاست جموں و کشمیر دوبارہ آزاد ہوگئی۔ ریاستوں کے آزاد رہنے کا حق وائسرائے ہند کے اعلان میں تحریری طور پر موجود ہے۔ اس لحاظ سے ریاست جموں و کشیر پوری کی پوری14اگست1947ء سے لے کر آزاد اور خودمختاری ہے۔ریاست جموں و کشمیر میں مجاہدین کی ڈوگروں سے جنگ جاری تھی۔ ریاست کا کافی حصہ مجاہدین نے ڈوگروں سے چھین لیا تھا۔ اس آزاد علاقے میں غازی ملت سردار محمد ابراہیم کی سربراہی میں24اکتوبر1947ء کو آزاد جموں و کشمیر کی حکومت مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت کے خلاف معرض وجود میں آگئی۔ اس نئی آزاد حکومت کا دارالخلاقہ پندری ضلع پونچھ کے جنوب میں رکھا گیا تھا اور بعد میں تراڑ کھل (جوتحال ہل) کے مقام پر منتقل کیا گیا۔امریکی مصنف جوزف کوریل اپنی مشہور کتاب ڈینجرز ان کشمیر میں لکھتا ہے کہ یہ تحریک ایک نوجوان کشمیری نے چلائی تھی، جس کا نام سردار محمد ابراہیم خان تھا۔ اس نے ماہ جون میں پوری ریاست کا دورہ کرکے اپنے ہم وطنوں کو مزاحمت کے لیے تیار کیا۔ ماہ اگست میں بمشکل حراست سے جان بچاکر پاکستان پہنچ گیا۔ کوہ مری کے مقام پر اس نے آزادی کشمیر کی بنیاد رکھی۔ جس کے نتیجے میں آزاد جموں و کشمیر معرض وجود میں آئی۔آج72ء سال گزر چکے ہیں، کشمیر کا مسئلہ باوجود یو این او کی قراردادوں کے حل نہ ہوسکا، بلکہ مزید پیچیدہ ہورہا ہے۔ کسی سیاسی مسئلے کے حل کے لیے جو مروجہ ہیں ان میں بین الاقوامی حل، باہمی فریقین کی بات چیت سے حل اور طاقت اور ہار جیت سے حل موجود ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے تقریباً یہ سارے طریقے آزمائے جاچکے ہیں۔ ہندوستان کسی طرح بھی کشمیر سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آزاد کشمیر کی حیثیت ایک لولکل اتھارٹی کی ہے۔ کشمیری لیڈران بالواستہ بین الاقوامیا داروں تک پہنچ پہنچ سکتے ہیں۔ ہندوستان مقبوضہ کشمیر پر تسلط قام کرچکا ہے۔ کشمیری تنہا اور نہتے ہیں۔ کنٹرول لائن پر روزانہ لوگ شہید یا زخمی ہورہے ہیں۔ ہم بین الاقوامی برادری کے اعتماد کو جھنجھوڑنے کی کوشش کررہے، بین الاقوامی مسلح پر کشمیر کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر نمایاں نہیں ہے۔ ہندوستان آہست آہستہ پوری کشمیر کو بھارت میں مدغم کررہا ہے۔ یہ پالیسی کشمیری تشخص کے خاتم کی حکمت عملی ہے اور پاکستان کی سیکوٹی کے لیے انتہائی خطرناک وارننگ ہے۔