ملکی معیشت پر ایک سروے

October 21, 2019

ملکی معیشت پر میں نے کئی کالم لکھے جن میں بزنس کمیونٹی کو درپیش حقیقی مسائل، پیداواری لاگت میں اضافہ، ایکسپورٹرز ریفنڈز کی عدم ادائیگی سے مالی مشکلات، بینکوں کے قرضوں کے شرح سود میں اضافے سے تاجروں اور صنعتکاروں کی مالی لاگت میں اضافہ، روپے کی بے یقینی صورتحال، سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے نئی صنعتوں اور ملازمتوں کے مواقع میں کمی، بیروزگاری اور غربت میں اضافہ، روپے کی قدر میں 50فیصد ڈی ویلیو ایشن کے باعث مہنگائی اور افراط زر میں اضافہ، مالی لاگت میں اضافے سے اشیا بالخصوص گاڑیوں کی طلب میں کمی، جی ڈی پی گروتھ اور معاشی سرگرمیوں میں سست روی سے ریونیو کی وصولی میں کمی اور کنسٹرکشن سمیت معیشت کے اہم شعبوں میں کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث متعلقہ شعبوں میں شدید مندی وہ وجوہات ہیں جن سے ہمارے معاشی اعداد و شمار حوصلہ افزا نہیں جو ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں جبکہ ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کی رینکنگ تین درجے کم کردی ہے۔

بیورو آف شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق افراط زر کی شرح گزشتہ 5برسوں کے مقابلے میں 13فیصدکی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اس موقع پر یہ ضروری ہے کہ میں ملکی معیشت پر حکومت کا موقف بھی پیش کروں۔ چند روز پہلے وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ تجارتی اور مالیاتی خساروں پر قابو پالیا گیا ہے، 5لاکھ نئے افراد ٹیکس نیٹ میں شامل ہوئے ہیں، مالیاتی خسارہ 36فیصد اور تجارتی خسارہ 35فیصد کم ہوا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر اور روپےکی قدر مستحکم ہوئی ہے جبکہ حکومت کو ایل این جی پلانٹس کی نجکاری سے 300 ارب روپے وصول ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کیلئے آئندہ دو ہفتوں میں قومی پالیسی کے اعلان کا وعدہ کیا۔ مشیر خزانہ کے بقول ایکسپورٹ میں اضافہ اور امپورٹ میں کمی لائی گئی ہے، اسٹاک مارکیٹ مستحکم ہوئی ہے اور گزشتہ تین ماہ کے دوران حکومت کے مالیاتی اخراجات میں واضح کمی آئی ہے۔

قارئین! ملکی معیشت کی حقیقی صورتحال جاننے کیلئے میں نے سابق وزیر خزانہ اور قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس کے چیئرمین اسد عمر سے اپنی حالیہ ملاقات میں اس موضوع پر گفتگو کی جنہیں معروف بزنس مین عارف حبیب نے ایک ظہرانے پر مدعو کیا تھا۔ تقریب میں میرے علاوہ ایس ایم منیر، بشیر جان محمد، خالد تواب، اشتیاق بیگ، حنیف گوہر، فیڈریشن کے نائب صدور اور عبدالسمیع خان بھی موجود تھے۔ اسد عمر صاف گو شخصیت ہیں اور بزنس کمیونٹی سے انہوں نے ہمیشہ قریبی تعلق رکھا ہے۔ دورانِ گفتگو انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرضہ لیا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت دبائو کا شکار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کا جائزہ مشن 28اکتوبر کو پاکستان آرہا ہے جس سے حکومت گردشی قرضوں کی ادائیگی کیلئے مستقبل قریب میں 200ملین ڈالر کے جاری کئے جانے والے سکوک بانڈز اور ایکسپورٹرز ریفنڈز کے 3سالہ بانڈز کو بینکوں سے ڈسکائونٹنگ کی سہولت کیلئے پاکستان کی خود مختار گارنٹیاں دینے کی خصوصی اجازت طلب کرے گا۔ یاد رہے کہ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا 3.5فیصد تک خود مختار گارنٹیاں دے سکتا ہے جو بڑھ کر 4.5فیصد تک پہنچ گئی ہیں اور آئی ایم ایف نے پاکستان کو مزید خود مختار گارنٹیاں دینے سے روک رکھا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کے قرضے 2024تک 65فیصد کی سطح تک رہیں گے۔ میں نے اسد عمر کو مشورہ دیا کہ ملکی معیشت جو جمود کا شکار ہے، کو بحال کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ اور بینکوں کے شرح سود میں کمی لانا اشد ضروری ہے تاکہ تاجروں اور صنعتکاروں کی مالی لاگت میں کمی لائی جاسکے۔

امریکی جریدے بلومبرگ کے مطابق پاکستان ایشیا میں سب سے زیادہ شرح سود کے حامل ممالک میں شامل ہے جس سے صنعتکاری اور نئی ملازمتوں کے مواقع متاثر ہورہے ہیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 2.4فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو نہایت کم ہے اور اتنی کم گروتھ سے ایف بی آر کا 5550ارب روپے کا بڑا ریونیو ہدف حاصل کرنا نہایت مشکل ہوگا۔ خدا کا شکر ہے کہ چین، ترکی، ملائیشیا، سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کی حمایت سے FATFنے پاکستان کو فروری 2020تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس طرح پاکستان کو 27میں سے باقی 22شرائط کو پورا کرنے کیلئے مزید 123دن مل گئے ہیں اور اس طرح پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی بھارتی سازش کامیاب نہ ہوسکی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر FATFکی باقی شرائط پر عملدرآمد کرے تاکہ FATFکی بے یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوسکے۔