حسد ،بغض ،کینہ اور عدوات عورت سے ہی منسوب کیوں ؟

October 23, 2019

مردوں میں بھی یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں

ساس بہو، نندبھابھی،دیورانی جیٹھانی، ان تمام رشتوں سے سب سے پہلا تاثر جو ذہن میں آتا ہے وہ کچھ عجیب سا ہوتا ہے یعنی اتنا زیادہ خوش گوار نہیں ہوتا۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’عورت ہی عورت کی سب سے بڑ ی دشمن ہے۔‘‘ چاہے دفتر میں ساتھ کام کرنے والی ساتھی ہو یا آپ کی ہم جماعت خواتین زیادہ ترایک دوسرے سے حسد، بعض اور عداوت وغیرہ ہی رکھتی ہیں اور اسی حسد کے پیش نظر وہ اپنی ساتھی یا گھر میں رہنے والی دوسری خواتین کی برائیاں شروع کردیتی ہیں،جس سے دلوں میں کینہ، رشتوں میں کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں، نفرتیں، رنجشیں بڑھتی اور تعلقات خراب ہوتے ہیں۔

غرض یہ کہ گھر ہو یا دفتر دونوں جگہ کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ مگر اکثر ایک سوال سب کے ذہنوں میں آتا ہے کہ حسد، جلن، کینہ پروری وغیرہ صرف صنف ِ نازک سے ہی کیوں منسوب کی جاتی ہیں، جب کہ یہ تو انسانی فطرت کا حصہ ہیں اور فطرت ہر انسان کی الگ ہوتی ہے۔

انسانی فطرت میں مرد بھی آتے ہیں اور خواتین بھی، یعنی اگر منطقی طور پردیکھا جائے تو جلن، حسد ،بغض رکھنے والی فطرت کو صرف عورتوں یا لڑکیوں سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ مرد حضرات بھی اِن ’’خصوصیات‘‘ کے مالک ہوتے ہیں صرف یہ کہہ دینا کہ خواتین ہی حسد کرتی ہیں جائز نہیں بلکہ سراسر غلط ہے، البتہ یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنی ناراضی کا اظہار چہرے کے تاثرات یا باتوں سے کردیتی ہیں ،جب کہ مرد اپنے تاثرات چھپانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں لیکن حسد، جلن، غیبت وغیرہ کرنے میں وہ کسی طور پر بھی خواتین سے پیچھے نہیں ہیں۔

اگر خاتون کو کسی ادارے یا شعبے کا سربراہ بنادیا جائے تو ان کے ماتحت کام کرنے میں سب سے زیادہ اعتراض مردوں کو ہی ہوتا ہے ، اگر کوئی خاتون اپنی قابلیت کی بناء پر کسی جگہ مردوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو مردوں کی جانب سے جو سب سے پہلا تاثر سامنے آتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ کسی کی سفارش ہوگی بہت کم مرد ان کی ذہانت کو تسلیم کرتے یا ان کی قابلیت کا اعتراف کرتے ہیں۔

اب اگر بات کی جائے ساس بہو، نند بھابھی وغیرہ کی تو وہ بھی تو ایک دوسرے کی برائیاں کرتی نظر آتی ہیں ،پھر اس میں بھی صرف خواتین ہی بدنام ہیں۔ حالاں کہ ایک مرد کو اپنے ساڑو،سالوں سے بھی حسد ہوتی ہے۔ اسی طرح دفتر میں کسی ساتھی کی ترقی ہوجائے تو دیگر مرد بھی باتیں بناتے ہیں لیکن ان تمام باتوں پر کسی کا دھیان نہیں جاتا اُن میں ( مردوں) کو حسد اور جلن کا شکار اس لیے نہیں کہا جاتا ،کیوں کہ وہ خواتین کی طرح اس کا اظہار سرِ عام نہیں کرتے ۔ اس بات سے انکا رممکن نہیں کہ خواتین میں حسد کا مادہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے، مگر ہوتا مرد میں بھی ہے۔