امامِ ربّانیؒ اور امام احمدؒ کی فکری ہم اہنگی

October 25, 2019

سیّد زاہد سراج قادری

امام ِربّانی، مجدّد الف ثانی، شیخ احمد سرہندی نقشبندی ؒ اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادریؒ جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تجدیدو احیائےدین کی ایسی عظیم خدمات انجام دیں کہ آج دنیا معترف ہے کہ ہر دو کا وجود ِ مسعود نہ ہوتا تواس سرزمین ہند و پاک میں اسلام اپنی شکلِ اصلی میں قطعاً باقی نہ بچتا۔ العلماء ورثۃ الانبیاء کے تاج کو جس طرح امام ربانی مجد د الف ثانی ؒنے چکاچوندکئے رکھا ، امام احمد رضا ؒنے فکر مجدد کو مزید بالیدگی عطا کی اور کسی طور اسے ماند پڑنے نہیں دیا۔ جو شمع حضرت مجددؒ نے جلائی ،امام احمدرضاؒ نے اسے اپنے خون جگر سےسینچا۔ کیوں نہ ہو، یہ سب فروغ دین اور فروغ عشق مصطفیٰ ﷺ کی عظیم ذمے داریاں تھیں جو بارگاہ مصطفیٰ ﷺ سے ہر دو مجددکو بالخصوص عطا کی گئی تھیں۔

امام ربانی مجدد الف ثانی ؒ اور امام احمد رضا ؒ چمنستان اسلام کے وہ گُل ہیں کہ جن سے اہل سنت و جماعت کا گلدستہ مہکتا ہے۔ ہر دو مجدد مذہباً بارگاہ حنفیت کے خوشہ چیں اور مشرباً راہ سلوک کے شاہ سوار ہیں۔ امام ربانیؒ کے وجود مسعود سے سلسلہ نقشبندیہ اور امام احمد رضاؒ کی ذات بابرکت سے سلسلہ قادریہ نے وہ ترقی کی کہ آج ہر دو امام کا جہاں روشن و منور ہے۔

اسلام کو ہر دور میں مختلف فتنوں کا سامنا رہا، ذات الوہیت میں شرک و کفر اور بدعقیدگی کی آمیزش کی سعی لاحاصل کی جاتی رہی ،یوں ہی جان جاناں ، رحمت عالم و عالمیاںﷺ کی محبت کو اہل اسلام کے دلوں سے نکال کر نور محمدی ﷺسے محروم کرنے کی مکروہ سازشیں کی جاتی رہیں۔ اس کام کے لئے بدعات و منکرات کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا کہ دسویں اور گیارہویں صدی میں امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ ؒنے بدعات و منکرات اور بد مذہبیت کے سامنے بند باندھا اور اہل اسلام کو ضلالت و گمراہی کی اندھیریوں سے نکال کر نور ونکہت کے سایے میں کھڑا کردیا۔ پھر تیرہویں اور چودہویں صدی میں مجدد ملت امام احمد رضا ؒنے اسی عَلم کو تھام کر بدعات و منکرات اور بد مذہبیت کا قلع قمع کیا اور اسلام کو اپنی اصلی شکل میں بحال رکھا۔ بلاشبہ ہر دو امام دین کے مجدد ہیں۔ رد بدعات و منکرات میں ہر دو مجدد کے فکر میں ایسی ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ دور جدید کی اصطلاح میں کہا جاسکتا ہے کہ گویا’’دونوں ایک پیج پر ہیں‘‘۔

انسان ہر روز کچھ نیا کرتا ہے، نیا کام نئی ایجاد اس کی افتاد طبع ہے۔ لغت میں بدعت ہرنئی چیز کو کہتے ہیں اوراصطلاح شرع میں ’’دین میں ایسی چیز اختراع کرنا،جس کی اصل دین میں نہ پائی جائے،بدعت ہے ‘یعنی ہروہ چیز جوکسی دلیلِ شرعی کے مُعارِض ہو،بدعت ِ شرعیہ ہے‘‘۔ جب یہ ایجاد کوئی نیا عقیدہ ہو یا نئی عبادت تو یہ قاطع سنت اور دافع شریعت ہے۔ اور اس نئے عقیدے اور نئے عمل کو بدعت سے تعبیر کرتے ہیں۔بدعات کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ انسان کے عقائد و اعمال میں ایسی پیوند کاری کرتی ہے کہ اس کے اسلام کی ماہیت ہی تبدیل کردیتی ہے۔ عقائد و اعمال پر بدعات کے زنگ کو صاف کرکے اسے اپنی اصل شکل میں بحال کرنا ہی کار تجدید ہے۔ بدعات و منکرات کا رد صرف احیائے شریعت سے ہی ممکن ہے۔ہر دو مجدد نے اپنے اپنے زمانے میں احیائے شریعت اور اتباع سنت کے ذریعے بدعات کا قلع قمع کیا۔

امام ربانی مجدد الف ثانی ؒاور امام احمد رضاؒ نے قلم کو اپنا ہتھیار بنایا اور عزیمت کو اپنی ڈھال اور اس راہ میں نہ تو کسی کی مخالفت کی پروا کی اور نہ لومۃ لائم سے خائف ہوئے، بلکہ امام ربانیؒ نے تو قید و بند کی صعوبتوں کو بھی خندہ پیشانی سے گلے لگایا۔ آپ نے مکتوبات شریف کے ذریعے کار تجدید کی تکمیل کی اور بدعات و منکرات کا رد فرمایا۔ اسی طرح امام احمد رضا ؒ نے اپنے قلم کی جولانی سے کتب و رسائل اور فتاویٰ جات کا زبردست ذخیرہ فراہم کیا اور بدعات و منکرات اور عقائد باطلہ کی بیخ کنی فرمائی۔ آج پوری امت ہر دو مجدد کے علمی و تجدیدی کارناموں سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کررہی ہے۔

بدعات و منکرات کا رد صرف شریعت کے احیاء سے ہی ممکن ہے۔ کمال دیکھیں کہ امام ربانی ؒکے زمانے میں بھی اور امام احمد رضاؒ کے دور میں بھی شریعت و طریقت کو الگ الگ پیمانے میں تولا جارہا تھا، بلکہ شریعت کے مقابلے میں طریقت کو فوقیت دینے کی بدعت فروغ پارہی تھی۔ ان حضرات نے اس امر کا واشگاف اعلان فرمایا کہ شریعت و طریقت حقیقتاً ایک ہی ہیں۔امام ربانی مجدد الف ثانی ؒنے شریعت کو ہی نجات کا مدار حقیقی قرار دیا اور متعدد مکتوبات میں شاہان مغلیہ بالخصوص اکبر بادشاہ،اس کے درباریوں،وزیروں اور عوام و خواص کو شریعت کی اہمیت اور اس کی پیروی کی طرف متوجہ فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں:’’شریعت مطہرہ کے تین جزو ہیں (۱)علم (۲)عمل اور (۳)اخلاص، جب تک یہ تینوں ثابت نہ ہوجائیں شریعت آنہیں سکتی اور جب شریعت آگئی تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگئی کہ یہ دنیا و عقبیٰ کی تمام سعادتوں سے اوپر ہے۔ (اللہ کا فرمان ہے) اور اللہ کی رضا مندی سب سے بڑی بات ہے۔ تو شریعت دنیا وآخرت دونوں کی سعادتوں کی ضامن ہے اور کوئی ایسا کام نہیں جس میں شریعت کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت پڑتی ہو۔‘‘(امام ربانی شیخ احمد سرہندی، مکتوبات امام ربانی،ج اول مکتوب نمبر ۳۶ )

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں:’’مستقیم الاحوال مشائخ، شریعت و طریقت اور حقیقت کے تمام مراتب میں حق سبحانہٗ وتعالیٰ کی اطاعت کورسول ﷺ اطاعت میں جانتے ہیں اور حق تعالیٰ کی وہ اطاعت جو آں حضرت ﷺ کی اطاعت کی صورت میں نہ ہو، اسے عین ضلالت و گمراہی خیال کرتے ہیں۔‘‘ (ایضاً، مکتوب نمبر ۱۵۲)

جاہل پیرومُرشِد جودین کے علم سے بے بہرہ ہیں،اپنی جہالت کا جواز اس طرح کی باتیں بناکر پیش کرتے ہیں کہ طریقت باطنی اور روحانی اَسرار ورَمُوز کا نام ہے،علماء توصرف الفاظ اورظاہر کو جانتے ہیں،اُن کے دل نورسے خالی ہیں، گویا طریقت اور شریعت کو ایک دوسرے کی ضد قراردیتے ہیں،امام احمد رضا قادری نے لکھا: ’’یہ قول کہ شریعت چند احکام فرض و واجب وحلال وحرام کا نام ہے، محض اندھا پن ہے، شریعت تمام احکام جسم و جان وروح و قلب و جملہ علوم الٰہیہ ومعارف نامتناہیہ کو جامع ہے جن میں سے ایک ایک ٹکڑے کا نام شریعت ومعرفت ہے ،لہٰذا باجماع قطعی جملہ اولیائے کرام تمام حقائق کو شریعت مطہرہ پر عرض کرنا فرض ہے، اگر شریعت کے مطابق ہوں حق و مقبول ہیں، ورنہ مردود ، تو یقیناً شریعت ہی اصل کار ہے، شریعت ہی مناط ومدار ہے، شریعت ہی معیار ہے، شریعت ’’راہ‘‘ کو کہتے ہیں، اور شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا افضل الصلوٰۃ والتحیۃ کا ترجمہ محمد رسول اللہ ﷺکی راہ، یہ قطعاً عام ومطلق ہے، نہ کہ صرف چند احکامِ جسمانی کے ساتھ۔‘‘(امام احمد رضا ، مقال العرفاء باعزاز شرع و علماء،مشمولہ فتاوی ٰ رضویہ، ج ۲۱،ص ۵۲۳،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)

امام احمد رضا ؒ نے مسلمانوں کو عقائد کی اصلاح اور بدعات و منکرات سے اجتناب پر بہت زور دیا۔

امام ربانی مجدد الف ثانیؒ نے،شاہان مغلیہ اکبر و جہانگیر اور شاہجہاں کے دور میں بدمذہبیت، منکرات و بدعات، دربار شاہی میں ’’زمین بوسی‘‘ کے نام پر سجدۂ تعظیمی، اکبر کے الحاد، دین اکبری کے نام پر ہندوانہ رسم رواج، قشقہ وزنار، کلمۂ طیبہ میں تبدیلی، علمائے سو کی مکاریاں،اور دیگر بدعات ومنکرات کے خلاف جہاد کیا اور بالآخر اللہ رب کریم نے ان کی مساعی کو قبول فرمایا اور ان خرافات و بدعات کا قلع قمع ہوا۔

غرض حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی اور امام اہل سنت امام احمد رضا قادری علیہم الرحمہ نے اپنی پوری زندگی اسلام اور شعائر اسلام کے احیاء کے لیے وقف کی۔ اس راستے میں جو بھی رکاوٹیں اور مصیبتیں در پیش آئیں، آپ نے ان کے خوف سے حق گوئی سے دریغ نہیں کیا۔ ہر دو مجد د نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ غیر اسلامی رسوم کا خاتمہ کیا جائے، مکمل طور پر شریعت کا نظام نافذ کیا جائے، بدعات و خرافات کا خاتمہ کرتے ہوئے سنت کا احیاء کیا جائے۔ آپ کی انقلاب آفریں کوششیں کامیاب ہوئیں۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ علمائے حق اور مشائخ عظام و صوفیائے کرام میدان عمل میں نکلیں اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی پیروی اور امام احمد رضا ؒ کی اتباع کرتے ہوئے حق و صداقت کا علم بلند کریں اور دین کو سربلند کریں۔

اعلیٰ حضرت ؒ،ایک ہمہ جہت شخصیت

اعلیٰ حضرت ؒ کی ذات ہمہ صفات تھی ،آپ نے جس میدان میں بھی قدم رکھا ،دنیا نے آپ کو اسی میدان کا شہسوار مانتے ہوئے سمجھا کہ شاید آپ نے اس فن کے حصول کے لیے تمام زندگی صرف کی ہے۔علم ہیئت ،توقیت ،جفر،فقہ، حدیث ،منطق ،فلسفہ ،سائنس وغیرہ کے نہ صرف ماہر تھے، بلکہ ہر فن میں خداداد علمی وتحقیقی صلاحیتوں کے مالک تھے اور ہر فن میں ایک نئے انداز وفکر وبیان سے کتاب تحریر فرماکر دنیا سے اپنے قلم کا لوہا منوایا،اسی طرح نعت گوئی میں بھی آپ امتیازی شان کے مالک تھے، آپ عشق رسول ﷺمیں سرشارتھے ،آپ کی تصانیف میں بھی عشق رسول ومحبت رسول ﷺکے ایمان افروز جلوے نظر آتے ہیں۔اس عشق ومحبت کے جلوؤں کی جھلکیاں آپ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ مسمیٰ تاریخی ’’حدائق بخشش‘‘میں بدرجہ کمال پائی جاتی ہیں، آپ کا کلام فصاحت وبلاغت ،لطائف ونزاکت اورسلاست وروانی کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔