قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے نیشنل ایمرجنسی کال نمبر جاری کیا جائے، ماہرین

October 25, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.

قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے نیشنل ایمرجنسی کال نمبر جاری کیا جائے، ماہرین

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قدرتی آفات اور بڑے حادثات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے، کراچی میں فوری طور پر نیشنل ایمرجنسی کال نمبر کے اجراء کی ضرورت ہے تاکہ آفات و حادثات کی صورت میں مدد کے لیے کسی ایک نمبر پر کال کرکے مدد کی درخواست کی جاسکے، وفاقی اور صوبائی محکمہ صحت کو حادثات سے بچاؤ کے شعبے قائم کرنے چاہئیں، نیشنل ٹراما رجسٹری کے قیام سے حادثات میں ہونے والی اموات اور معذوریوں کی وجوہات جاننے اور انہیں کم کرنے میں مدد ملے گی۔

ان خیالات کا اظہار ایمرجنسی میڈیسن سے وابستہ ملکی اور غیرملکی ماہرین صحت نے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے سالانہ سمپوزیم کے تحت ہونے والے ایمرجنسی کیئر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قدرتی آفات اور بڑے حادثات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے، ماہرین

کانفرنس کی صدارت معروف نیورو سرجن اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر رشید جمعہ نے کی جبکہ ایمرجنسی میڈیسن کے نامور ماہرین جن میں شاہ فیصل اسپیشلسٹ اسپتال جدہ سے وابستہ ڈاکٹر یاسر قریشی، جناح اسپتال کراچی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی، معروف آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر سعید منہاس، قومی ادارہ برائے امراض قلب کے ایمرجنسی انچارج ڈاکٹر منور خورشید، آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے ماہر زہر خورانی ڈاکٹر ندیم اللّٰہ خان، ڈاکٹر راشد عقیل، انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس پاکستان کے نمائندے ڈاکٹر میر واعظ، ڈاکٹر جویریہ اشرف اور ڈاکٹر صائمہ مشتاق نے بھی خطاب کیا۔

معروف نیوروسرجن پروفیسر رشید جمعہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بڑے شہروں خصوصاً کراچی میں میں 911 طرز کا نیشنل ایمرجنسی کال نمبر جاری کیا جانا چاہئے جو شہر میں چلنے والی تمام ایمبولنس سروسز اور اداروں کو کوآرڈینیٹ کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سروس کراچی کی سٹی گورنمنٹ یا کے ایم سی کے ماتحت ہونی چاہیے۔

پروفیسر رشید جمعہ نے مزید کہا کہ اس وقت اسپتالوں کی ایمرجنسی میں موجود عملے کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ اگلے چند منٹوں میں ان کے سامنے کسی حادثے میں زخمی ہونے والے کتنے اور کس نوعیت کے مریض لائے جائیں گے اور انہیں کس طرح کے زخم ہوں گے، نیشنل ایمرجنسی کال نمبر ہونے کی صورت میں اسپتالوں کے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کسی بھی حادثے کے بعد بہتر طور پر تیار ہوسکتے ہیں۔

جناح اسپتال کراچی کے شعبہ حادثات کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ادارے نے پورے ملک میں اپنا لوہا منوا لیا ہے اور اب نہ صرف کراچی بلکہ اندرون سندھ اور بلوچستان میں ہونے والے حادثات کے نتیجے میں مریضوں کو جناح اسپتال پہنچانے پر زور دیا جاتا ہے۔

جناح اسپتال کراچی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری اسپتال کو ایمرجنسی کی صورت میں مریضوں کو طبی امداد فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ چھوٹے سے چھوٹے اسپتالوں میں مریض کو فوری طبی امداد دے کر کسی بڑے سرکاری و غیر سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی کی طرف روانہ کر دینا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جسے روکنے کے لیے عوام الناس میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو بھی اپنی کمیونیکیشن کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہوگا۔

معروف آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر سعید منہاس نے بتایا کہ دنیا بھر میں ہر سال 60 لاکھ افراد مختلف زخموں کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہوجاتے ہیں جبکہ چالیس لاکھ سے زائد افراد ہر سال مختلف حادثات کے نتیجے میں مستقل طور پر معذور ہوجاتے ہیں۔

ڈاکٹر سعید منہاس کا کہنا تھا کہ حادثات کے نتیجے میں ہونے والی اکثر اموات اور معذوریوں سے بچا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں مہذب ملکوں کے رہنے والے عوام کی طرح برتاؤ کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کار سوار سیٹ بیلٹ باندھ کر گاڑیاں چلائیں، موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ لازمی پہنیں، ٹریفک قوانیین کی پابندی کی جائے اور صنعتوں میں حفاظتی اقدامات پر عمل کیا جائے تو حادثات کے نتیجے میں ہونے والی اموات اور معذور ہونے کے واقعات سے بہت حد تک بچا جا سکتا ہے۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) پاکستان کے نمائندے ڈاکٹر میر واعظ کا کہنا تھا پاکستان میں طبی اور نیم طبی عملے سمیت ایمبولینس ڈرائیوروں اور دیگر ویلفئیر سروس فراہم کرنے والے ورکرز کے خلاف تشدد بڑھتا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قوانین سخت کرکے اور اسپتالوں میں سیکورٹی میں اضافہ کرکے کسی حد تک ان واقعات سے بچا جا سکتا ہے لیکن اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ عوام الناس میں طبی عملے کی خدمات کے حوالے سے آگاہی پھیلائی جائے۔

آغاخان اسپتال سے وابستہ زہر خوانی کے ماہر ڈاکٹر ندیم اللّٰہ خان کا کہنا تھا کہ کسی زہریلی چیز کھا لینے کے بعد مریض کو الٹیاں کروانے سے گریز کرنا چاہئے اور اسے فوری طور پر کسی بڑے اسپتال میں لے جانا چاہیے، جسم پر کسی کیمیکل کے نتیجے میں زخم ہونے یا جلنے کی صورت میں متاثرہ حصوں پر پانی ڈالا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت زہر خوانی کے اثرات کم کرنے کے لیے پسا ہوا کوئلہ یا ایکٹیویٹڈ چارکول مریض کو دیا جاتا ہے لیکن اس کا فیصلہ ماہرین صحت ہی کر سکتے ہیں۔

جناح اسپتال میں ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر جویریہ اشرف کا کہنا تھا کہ جناح اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ہر طرح کی ایمرجنسی سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال ایمرجنسی میں 5 لاکھ سے زائد مریضوں کو طبی امداد دی گئی، لاکھوں ایکسرے، الٹراساؤنڈ اور سی ٹی سکین کیے گئے جبکہ ہزاروں مریضوں کے ایمرجنسی تھیئٹرز میں آپریشن کئے گئے۔