نواز شریف کی بیماری نے حکومت کو پریشان کردیا

October 31, 2019

لاہور کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیوں پر میاں نواز شریف کی علالت بھرپور طریقے سے اثر انداز ہو رہی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے حمایتی اور مخالفین اس پر اپنے اپنے انداز میں تبصرے اور تجزیئے کر رہے ہیں۔

میاں نواز شریف کی علالت نے پنجاب حکومت ہی کو نہیں بلکہ وفاقی حکومت اور مقتدر حلقوں کو بھی نہ صرف پریشان کر دیا ہے بلکہ ان کی نیندیں بھی حرام کر دی ہیں۔ میاں نواز شریف کی علالت کے وقت لاہور میں گرینڈ ہیلتھ الائنس (ینگ ڈاکٹرز، نرسز، پیرا میڈکس و ٹیکنیشنز و دیگر پر مشتمل اتحاد) کی آئوٹ ڈور بند رکھ کر ہڑتال چل رہی ہے۔

جس جے یو آئی (ف) کی طرف سے ملک میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف دھرنے اور احتجاج کی کال کا بھی بہت شور ہے مگر یہ تمام ثانوی سرگرمیاں اور میاں نواز شریف کی علالت ٹاپ سٹوری ہے۔

میاں نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کا خطرناک حد تک بار بار گرنا میڈیکل بورڈ کے لئے درد سر بنا ہوا اور بظاہر میڈیکل بورڈ ابھی تک اس امر کی تشخیص نہیں کر پا رہا کہ میاں نواز کے پلیٹ لیٹس معقول حد تک بڑھ جانے کے بعد اچانک نیچے کیوں گر جاتے ہیں یہ انتہائی خطرناک علامت ہے جس سے سینئر ڈاکٹرز کا میڈیکل بورڈ بھی سخت پریشان ہے۔

اگر میاں نواز شریف کو اپنے مرض کے علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی ضرورت بھی ہو اور عدالتوں سے ضمانت اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سزا کی معطلی بھی ہو جائے۔ حکومت بھی اس کی اجازت دے دے تو پھر بھی یہ بڑا اہم سوال اٹھتا ہے کہ میاں نواز شریف کی صحت سفر کروانے کے قابل ہے؟ جس سے شریف فیملی اور دیگر حلقے بھی یقیناً پریشان ہیں۔

میاں نواز شریف نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون پاکستان بھی ایک بڑی اہم شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جس سے حکومت اور سرکاری میڈیکل بورڈ پر بھی غیر معمولی پریشر ہے۔

اس پریشر کے ساتھ پنجاب میں سوائے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کسی دیگر حکومتی شخصیت کا کوئی قابل ذکر رول نہیں رہا اور وفاق کی ہدایات پر ہی عمل درآمد کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔ جس سے کمزور گورننس کا شائبہ ہوتا ہے۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کا طوالت پکڑتا احتجاج صوبائی محکمہ صحت، حکومت پنجاب اور خود گرینڈ ہیلتھ الائنس کے لئے کوئی نیک نامی کا سبب نہیں بن رہا ہے اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ گورننس مفقود ہو گئی اور ہسپتالوں کا ہڑتالی عملہ بھی مریضوں کے لئے ہمدردی کا کوئی پیغام نہیں دے پایا۔

جس سے فریقین کی نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا لہٰذا فریقین کو اس پر ازسر نو غور کرنا چاہئے اور کوئی درمیانی راستہ نکالنے کے لئے خلوص نیت کے ساتھ کوشش کرنی چاہئے۔ ہسپتالوں میں علاج معالجے کو معمول پر لانا دونوں فریقوں کی برابر کی ذمہ داری ہے اور عوام بے بسی کے ساتھ فریقین کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

جے یو آئی (ف) کی طرف سے اسلام آباد میں دھرنے کی کال کے حوالے سے بھی پچھلے دنوں لاہور میں بڑی شدومد سے سیاسی سرگرمیاں رہیں۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کے صدر و قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف سے متعدد ملاقاتیں کیں اور میاں نواز شریف کی تحریری ہدایات کے بعد مسلم لیگ (ن) مولانا فضل الرحمٰن کی کال پر ان کے دھرنے میں شمولیت کا اعلان کر دیا مگر حالات اتنی تیزی کے ساتھ بدلے ہیں کہ کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ میاں نواز شریف کی علالت کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے ایک کیس چوہدری شوگر ملز میں میاں نواز شریف کی ضمانت لے لی۔

جبکہ العزیزیہ کیس میاں نواز شریف کو سنائی گئی قید کی سزا عارضی طور پر ہی سہی مگر اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے میاں نواز شریف کی عارضی ضمانت نے مسلم لیگ (ن) کے عام کارکنوں میں دھرنے اور ریل میں شرکت کے جذبے کو کافی حد تک کم کر دیا اس کی وجوہات پر طویل بحث کی جا سکتی ہے اور ہر ایک کے پاس اپنی رائے کے حق میں دلائل بھی ہیں مگر حقیقت یہی ہے اور اگر میاں نواز شریف عدالتی فیصلے کے بعد اجازت ملنے پر اگر پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں جس کا فیصلہ تادم اشاعت ہو چکا ہو گا تو پھر اس دھرنے میں مسلم لیگ (ن) کی شرکت شاید محض علامتی ہی رہ جائے۔

لاہور سمیت ملک بھر میں ڈینگی کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور نومبر میں سردی میں اضافہ کے ساتھ ڈینگی عارضی طور پر قابو آ جائے گا۔ مگر سوچنے اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے حکومت نے کیوں بروقت موثر اقدامات نہیں اٹھائے۔