مجھے کیا برا تھا مرنا

February 22, 2013

موبائل کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون آن کیا۔ دوسری طرف سے آواز آئی ”ڈاکٹر صاحب بول رہے ہیں؟“ میں نے جواباً عرض کیا ”جی فرمایئے!“ یہ ایک سوگوار شخص کی سوگوار آواز تھی۔ کہنے لگا ”میں ادیب نہیں لیکن مجھے غالب# کا یہ مصرعہ زندگی میں پہلی بار سمجھ میں آیا ہے۔ ڈاکٹرصاحب جب کوئی بات یا شعر انسان پر بیت جائے تب اس کے صحیح معانی اورسچا مفہوم منکشف ہوتاہے۔“ میں نے پریشانی کے عالم میں پوچھاکہ عزیزم کون سا مصرعہ؟ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ اس کا لہجہ مزیدبھیگ گیا جیسے وہ آنسو پینے کی کوشش کر رہاہو۔ مجھے یوں لگا جیسے اس کے آنسو آنکھوں سے نکل کر آواز میں شامل ہوگئے ہوں۔کہنے لگا ”ڈاکٹرصاحب غالب# نے کیا خوب کہا تھا ”مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا“ ڈاکٹر صاحب میں عمر بھر اس مصرعے کو شاعر کا تخیل سمجھتا رہا۔ اب سمجھ میںآ یا ہے کہ یہ تخیل نہیں حقیقت ہے۔ کبھی کبھی انسان موت سے پہلے ہر لمحے مرتا اور ہر لمحے جیتا ہے۔ یہ بڑی کربناک اوردردناک زندگی ہوتی ہے لیکن اس کا دکھ صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اس قیامت سے گزر رہا ہو۔ ڈاکٹرصاحب کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے لوگ اور کراچی کے کچھ علاقوں کے شہری انجانی موت کے اسی تجربے اور خوف کا شکار ہیں۔
ہزاروں لوگوں کا خون بہا کر بھی ظالموں کا انتقام ٹھنڈا نہیں ہوا اوروہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ ہم اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ حکومت بے بس ہے اور ہم ایک عرصے سے حکومت کی بے بسی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس سے جنازے نہ اٹھے ہوں۔ اب تو یوں لگتا ہے جیسے موت ہر لمحے ہمارا پیچھا کر رہی ہے۔ ہمارا وطن ہمیں پناہ دینے کو تیار نہیں اور کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہمیں جائے پناہ کہاں ملے گی۔ جسے مادر ِ وطن کی گود پناہ نہ دے اسے جائے اماں کہاں ملے گی؟ ڈاکٹر صاحب ہم ہر لمحے مر رہے ہیں… “یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگا اور پھر اس کے بعد فون بند ہو گیا۔
میں کچھ دیر کے لئے سکتے میں آگیا۔ مجھے یوں لگا جیسے اس کے الفاظ مجھے اندر سے لہولہان کر گئے ہیں اور میں مسلسل غم و اندوہ کی لہر میں بہہ رہا ہوں۔ اس نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ موت سے پہلے مرنا زیادہ دردناک اور تکلیف دہ ہوتاہے۔
ایک وہ موت ہے جو اٹل ہے۔ جس کا وقت مقرر ہے۔ انسان ساری زندگی اس سے بے خبر اورلاپرواہ ہو کر گزار دیتا ہے۔ اس کی آرزو کرتا نہ اس سے بلاوجہ ڈرتا ہے۔ ورنہ اگر انسان کو صحیح معنوں میں موت کا خوف ہو تو وہ قتل و غارت کرے نہ ڈاکے ڈالے۔ کسی بیوہ کا گھر لوٹے نہ یتیم کی جائیداد پر قبضہ کرے۔خزانہ چوری کرے نہ رشوت اور ظلم و ستم کے قریب پھٹکے۔ دھوکہ دہی کرے نہ ملاوٹ کرکے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلے۔ انسان خدا کے نظام اور موت کی حقیقت کو بھلا کر عیش و عشرت میں مست رہتا ہے اور بابر باعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے نعرے لگاتا رہتاہے حتیٰ کہ وقت مقررہ پرحضرت عزرائیل تشریف لے آتے ہیں شاید حضرت ابوبکر صدیق کا قو ل ہے کہ موت کو ہر وقت یاد رکھو لیکن موت کی دعا ہرگز نہ مانگو موت کو یاد رکھو تاکہ خوف ِ خدا تمہیں برائی سے روکے۔ موت کا خوف تمہارا ہاتھ پکڑلے اورتمہارے ارادے بدل دے۔ موت کی دعا کبھی نہ کرو کہ یہ ناشکری ہے۔
زندگی اللہ سبحانہ  تعالیٰ کا تحفہ اور نعمت ہے۔ اسے بھرپور انداز سے خدائی منشا کے مطابق گزارنا منشائے الٰہی، نظام قدرت اور امرربی ہے۔ ہم سب نظام قدرت اور امر ربی کے پابند ہیں لیکن جب یہی موت ایک مسلسل خوف بن جائے انسان ہر لمحہ گولی یا بم دھماکے کاانتظار کرنے لگے اور ہمہ وقت یہ احساس اس کے اعصاب پر سوار رہے کہ موت اس کے تعاقب میں ہے تو پھرزندگی موت سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔پھر انسان ہرلمحہ مرتا اور ہرلمحہ جیتاہے۔ یہ ہے وہ ذہنی کیفیت، انجانا خوف اور قلبی عذاب جس میں پاکستان کے بہت سے لوگ مبتلا ہیں۔ ان پر صبر کی تلقین کارگر ہوسکتی ہے نہ ان سے حب الوطنی کے تقاضوں کی تکمیل کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے۔ جو ریاست اپنے بچوں کو احساس تحفظ فراہم نہ کرسکے اس سے ماں کی طرح پیار نہیں کیا جاسکتا۔ جس کا اپنا گھر جل رہا ہو اس کا جی چاہتا ہے کہ میں دوسروں کے آشیانوں کو بھی آگ لگا دوں۔ جو شخص ہمہ وقت موت اور گولی کے تعاقب کے خوف میں مبتلا ہو اس کاجی چاہتاہے کہ مرنے سے پہلے وہ بھی چند ایک کا خون بہالے اورانتقام اور خوف کی آگ ٹھنڈی کرلے۔ میں ان لوگوں کواپنے پیاروں کی میتوں کے ساتھ بیٹھے صبر و تحمل کے پہاڑ بنے دیکھتا رہا اور سوچتارہا کہ انہیں اتنے عظیم صبر اورگہرے تحمل کی قیمتی ترین متاع کہاں سے ملی ہے۔ ان کے پاس یہ انمول دولت کہاں سے آئی ہے۔ میں سوچ کے سمندر میں ڈبکیاں کھا رہا تھا کہ کسی نے دھیرے سے میرے کان میں سرگوشی کی۔
انہیں یہ صبر ”حسینیت“ سے ملا ہے۔ پھر رازوں کے پردے چاک ہوتے چلے گئے لیکن نہیں رہنے دو، ابھی ان کے ذکر کا وقت نہیں آیا۔
احمدندیم قاسمی کامشہورشعر ہے:
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
ایسا ہی ہوتا ہے قطرہ سمندر میں مل کر گم ہوجاتاہے مٹی کا ڈھیرمٹی میں مل کر مٹی ہو جاتا ہے۔ مٹی اوپر، مٹی نیچے لیکن جب تک اس مٹی میں روح رہتی ہے تو یہ مٹی کا ڈھیر خدا بن کر زمین پردندناتا پھرتا ہے۔ خونریزی کرتا، ہنستے بستے گھروں کو آگ لگاتا، اقتدار، طاقت اور دولت کے نشے میں مست رہتا اور انجام سے بے خبر انسانوں کے لئے موت بنا پھرتا ہے۔ بلاشبہ موت برحق اور اٹل ہے اور انسانی فطرت صرف ایسی ہی موت کو قبول کرتی ہے۔ ہر لمحے مرنا، موت کے سائے میں زندہ رہنا اورزندگی کے ہر سانس میں خوف کا بوجھ اٹھائے پھرنا بڑا ہی اذیت ناک ہوتا ہے۔
اے رب رحیم و کریم ۔ ہم پہ رحم کر … ہم پہ رحم کر