آزادی مارچ بنیادی کامیابی سمیٹ چکا!

November 10, 2019

آزادی مارچ سے اپنے خطاب میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے ایک نئے عمرانی معاہدے کی بات کی ہے۔ ایسا مطالبہ پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا، ہمارے اکثر سیاسی زعما گاہے گاہے عمرانی معاہدے کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے رہے ہیں۔ اس سے قبل کہ اس سوال کا جائزہ لیا جائے کہ ایک آئین، جسے تمام سیاسی و مذہبی قوتیں ریاست و شہریوں کیلئے بے بدل قرار دیتی ہیں، کے ہوتے ہوئے ایک نئے عمرانی معاہدے کا احساس کن ضرورتوں کے سبب پیدا ہوا ہے؟ آپ کو یاد ہوگا کہ 2009ء میں میاں نواز شریف نے کہا تھا ’’ریاست کے تمام سماجی، سیاسی، معاشی اور آئینی معاملات کو عوام کی اُمنگوں اور ترجیحات کے مطابق استوار کرنے کیلئے ضروری ہے کہ فرد اور معاشرہ، معاشرہ اور ریاست، شہری اور حکومت کے مابین نیا عمرانی معاہدہ وجود میں لایا جائے‘‘۔ مارچ 2019ء میں بلاول بھٹو نے جب لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی تو بتایا گیا تھا کہ ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ میثاق جمہوریت کی طرز پر نئے عمرانی معاہدے کی تشکیل کی جائے۔ سادہ معنوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ عمرانی معاہدے کے دو پہلو ہیں، ایک یہ کہ وفاق اور اس کی اکائیوں کے درمیان کس طرح کا تعلق ہونا چاہیے، دوم ریاست اور اس کے افراد کے درمیان کس طرح کا تعلق قائم ہونا چاہیے۔ ارسطو، سقراط، افلاطون اور دوسرے یونانی فلاسفروں نے جس عمرانی معاہدے کی بات کی تھی اُس کے تحت ایک ریاست کو اپنے شہریوں کو انصاف دینے کا ضامن ہونا چاہئے۔ ہر زمانے کے دانا فرد و ریاست کے مابین تعلق کی تشریح معروضیت کو سامنے رکھتے ہوئے کرتے ہیں لیکن بنیادی نکتہ اول تا ہنوز وہی ہے جو افلاطون نے اُٹھایا کہ ایک ایسی ریاست جہاں انسان فطری طور پر اپنی شخصیت کی تکمیل کے مراحل میں سے گزرے اور ریاست کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھائے۔ مہذب و متمدن دنیا کی ترقی کا راز بھی یہی ہے۔ اس سلسلے میں جب ہماری نظر اپنے سراپے پہ آتی ہے تو بلامبالغہ ہم آج بھی ایک عمرانی معاہدے میں بندھے ہوئے ہیں، جسے آئین کہا جاتا ہے لیکن جیسے ابتدا میں گزارش کی گئی کہ ایک ایسا آئین جسے ہر کوئی دل و جاں سے اپنا بتاتا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اُس کی موجودگی میں دیگر راستوں کو تلاش کیا جا رہا ہے؟ ایک سادہ سا جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ اگرچہ آئین میںتمام عوارض کا علاج موجود ہے لیکن چونکہ عملدرآمد کا فقدان ہے، اس لئے ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ سوال مگر یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک متفقہ آئین پر اگر عملدرآمد نہیں ہوتا یا نہیں کروایا جا سکتا تو اس بات پر کیسے یقین کر لیا جائے کہ نئے طے پانے والے عمرانی معاہدے پر عمل کرایا جا سکے گا؟ بات واضح ہے کہ آئینکے تحت جو اسٹیک ہولڈرز ہیں، کوئی نیا معاہدہ بھی اُنہی اسٹیک ہولڈرز کے مابین ہی ہونا ہے۔

معروف محقق ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ ’’ماضی میں بڑی بڑی مزاحمتی تحریکیں پیدا ہوئیں، یہ تمام تحریکیں چونکہ شخصیات کے خلاف تھیں اسی لیے نظام کو درپیش مسائل آج تک حل نہیں ہو سکے‘‘ گویا میاں صاحب سے لیکر مولانا صاحب تک اکابرین کی بڑی تعداد کا کہنا یہی ہے کہ ’’نظام کو درپیش مسائل جوں کے توں ہیں‘‘ اس لئے ہم عوام کو نئے عمرانی معاہدے کے خیال کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے، بنابریں اگر سوچ یہی ہے تو پھر ہم نظام کے عدم استحکام سے دیگر کے علاوہ سیاستدانوں کو بھی بری الذمہ نہیں قرار دے سکتے۔ آج ہم انتخابات میں دھاندلی، مداخلت، سلیکشن، کام نہ کرنے دینے، آمریت، مارشل لا، سیاسی عدم استحکام جیسے جو الزامات سن رہے ہیں، یہ نئے نہیں ہیں اور قیامِ پاکستان کے فوری بعد یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔

ولیم جیمز کا کہنا ہے کہ صداقت کا معیار یہ ہے کہ وہ ہماری زندگی پر کیا مفید یا صالح اثرات مرتب کرتا ہے۔ اب اس فلسفے کو اگر ہم سامنے رکھتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہماری قومی زندگی پر جو آج منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، یہ دراصل ہماری مجموعی صداقت کی نفی ہیں۔ عرض یہاں یہ کرنا ہے کہ ہمیں مجموعی طور پر آج کے بحران کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ آزادی مارچ سے ہو سکتا ہے کہ ایک سے زائد نے در پردہ کچھ مفاد بھی حاصل کر لئے ہوں اور یہ کہ اصل ہدف یعنی استعفیٰ بھی شاید مولانا کو نہ ملے لیکن اگر آزادی مارچ سے تمام اسٹیک ہولڈرز بالخصوص عوام تک یہ پیغام کماحقہ‘ پہنچ سکا ہو کہ ریاست و عوام کی بقا کیلئے سب سے اہم نظام کا استحکام ہے، جو اس وقت عدم استحکام سے دوچار ہے تو ہمارے خیال میں یہ ایک ایسی کامیابی ہوگی، جو شاید استعفے کے مطالبے سے بھی زیادہ ملک و ملّت کیلئے دوررس نتائج لائے۔