پانچ پڑاؤ اور.... لفظوں کا سودا گر

November 24, 2019

شہر ابھی سو رہا ہے۔ اتوار کےدن یہ شہر دیر تک سویا رہتا ہے۔ ہم اس سوئے شہر کے کچھ سر پھرے، جاگے ہوئے لوگ تھے۔ سڑک پہ گاڑیاں بہت کم تھیں اور یہ اس شہر کی سڑکوں کے لیے ایک انوکھی بات ہے کہ گاڑیاں کم ہوں۔ دھویں کا غبار، ہارن کا شور نہ ہو۔ صبح بہت اُجلی اور دُھلی دُھلی سی ہے۔ یہ سب باتیں اِس ’’شہرِطلسمات‘‘ کی صبح کے لیےبہت ہی عجیب ہیں۔

گاڑی بغیر رُکے سڑک پر تیر رہی ہے، کہیں بھی بریک نہیں لگانی پڑی۔ نہ ہی کسی اور کی غلط ڈرائیونگ پہ دل ہی دل میں گالیاں دینی پڑ رہی ہیں۔ ہم چار لوگ اس سویرمیں کچھ تلاش کرنے نکلے ہیں، ایک قبرستان، زندہ لوگوں کے شہر میں مُردہ لوگوں کا ایک شہر۔

اردگرد کی گہماگہمی سے بےخبر آسودۂ خاک لوگوں کا مسکن۔ ہمیں ایک ’’زندہ آدمی‘‘ کی قبر کی تلاش ہے۔ جی، ایک زندہ آدمی، جو دفن کردیا گیا، جس پہ مَنوں مٹّی ڈال دی گئی، مگر وہ مَر کے بھی نہیں مَرا۔ وہ بہت سی قبروں کے جنگل میں گِھری ایک قبرتھی۔ اُس قبر پہ کنکریٹ سے بنا تعویز، تعویز کےسرہانے لگا سنگِ مرمر کا کتبہ اور قبر پہ بکھرے، مُرجھائےسُرخ گلاب کے پھول دیکھ کر بھی مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ اِس قبر میں لیٹا شخص مر چُکا ہے۔

کئی سالوں سے مَیں ایک ’’ساحر،جادوگر‘‘ سے ملناچاہتا تھا۔ ارسلان احمد راٹھور، جو میرا دوست کم، بھائی زیادہ ہے۔ اُس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے ایک دن ضرور اُس سے ملوائے گا۔ صبح سویرے میں درس گاہ کے ذیلی گیٹ پر پہنچا، تو ارسلان میرا منتظر تھا۔ آج سے دو دہائیاں قبل اِس درس گاہ میں مَیں نے دو سال گزارے تھے۔ اُن دو سالوں کی یادیں اب بھی جگنو بن کر ذہن کے پردے پر جگمگاتی ہیں۔

ارسلان کو پہچان کر سلیٹی وردی میں ملبوس گارڈز نے آہنی دروازہ کھول دیا۔سُرمئی سڑک، جوکیمسٹری کےدو بلاکس کےبیچ سے گزرتی پہلے دائیں اور پھر بائیں مُڑتی ہے، اُسی سڑک کی داہنی طرف وہ ہاسٹل ہے، جس میں لڑکپن کے دو سال شرارتیں کرتےبیتے تھے۔ ہاسٹل کے سامنے سے گزرتی گاڑی سُرخ اینٹوں سے بنی اُس سہ منزلہ عمارت کےسامنے پہنچ کر رُک گئی۔ مَیں ارسلان کے ساتھ گاڑی سے نیچے اُتر آیا۔

صبح کی اُس خنکی میں ہم دونوں سُرخ اینٹوں سے بنے ایک محرابی دروازے کےسامنےتھے۔ دو جالی دار کواڑوں کے اوپر ایک طاقچہ سا تھا، جس میں شیشےکےدونیم تکون اورایک نیم چوکورٹکڑا آویزاں تھا۔ چار سیڑھیاں چڑھ کے ارسلان نے جالی والا دروازہ کھینچا۔

چرچراہٹ کی آواز سے اُس کےپَٹ کُھلے۔مَیں دھڑکتے دل کےساتھ اُس کے پیچھے پیچھے تھا۔ ایک نیم دائرے میں گھوم کر سیڑھیاں اوپر جارہی تھیں۔ سیڑھیاں پھلانگتے پہلی منزل پر پہنچےاور پھر کاریڈور سے بائیں گھوم گئے۔ اُس کاریڈور میں دو طرفہ کمروں کی قطاریں تھیں۔ داہنی طرف آخری سے پہلے کمرے کے سامنے جا کر ارسلان رُک گیا۔ مَیں بھی اُس کے ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔

کمرہ نمبر202 دروازے پر تختی آویزاں تھی۔ ارسلان نے داہنے ہاتھ سے دروازے پہ دستک دی تو مَیں دھڑکتے دل کے ساتھ تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔ کئی سالوں سے میں اُس شخص سے ملنے کا خواہاں تھا۔ ہر مرتبہ جب بھی وہ اِس شہرِدلآویز میں آیا، تو کسی نہ کسی وجہ سے یہ خواہش ادھوری رہ جاتی۔ ابھی دروازہ بند تھا اور مجھے آج بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں اُس شخص کو اپنی آنکھوں سےدیکھ پاؤں گا، اُس سےباتیں کر سکوں گا۔

سوئے ہوئے اِس شہر کی اِس نیم جاگتی، نیم سوئی صُبح میں مجھے لگا، جیسے مَیں ابھی بھی سو رہا ہوں، کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ آنکھ کُھلے گی اور یہ سارا منظریک دَم غائب ہوجائے گا۔ ’’آئیے آئیے…اندر آجائیے۔‘‘ دروازہ کُھلا اور ایک شہد جیسی میٹھی آواز کانوں سےٹکرائی۔ میری آنکھیں بندنہیں تھیں اورکُھلی آنکھوں سےجو دیکھا جائے، وہ خواب نہیںہوتا۔ وہ شخص، جس کی انگلی پکڑ کر مَیں نے ہفت آسماں کی سیر کی، جس کی ہمرہی میں،مَیں نےکئی زمانوں کاسفرکیا تھا۔ جس نے مجھےصدیوں پُرانی تصویریں دکھائی تھیں۔

وہ شخص جس سےمیری کوئی جان پہچان نہیں، جو میرے لیے اجنبی ہے۔ ہم نے کبھی ہاتھ تک نہیں ملایا، گفتگو نہیں کی۔ کبھی مِل بیٹھےنہیں، پھر بھی عُمر میں نصف صدی بڑا وہ شخص میرا دوست تھا۔ گلیوں، بازاروں، چوکوں، چوباروں، جنگلوں، بیابانوں، کوٹھوں، دکانوں میں، مَیں اُس کے ساتھ ساتھ پِھرتا رہا تھا۔ وہ ایک ساحر تھا، لفظوں کا کھلاڑی، اُس کی اپنی ایک طلسمِ ہوش رُبا تھی۔

اُس ساحر کا کمال یہ ہے کہ اُس کاجادو قصّے، کہانیوں میں سرچڑھ کر بولتا ہے۔ وہ اپنے لفظوں سے آدمی کے اردگرد حیرتوں کا ایک جال سا بُن دیتا ہے۔ ایسا جال، جس میں داخل ہونے والا دنگ رہ جاتا ہے، مبہوت ہو کر پتھر کا ایک بُت بن جاتا ہے۔

جادوگر کی آواز جب کانوں سے ٹکرائی تو مَیں بھی ایک بُت بن چُکا تھا۔ جس میں اُس کی آوازنےجیسے پھر سے روح پھونک دی۔ دبلا پتلا جسم، چمکتی نیلی آنکھیں… اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی مجھے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آرہا تھا۔ ہم دونوں کمرے میں داخل ہوئے اور ایک طرف مؤدب کھڑے ہوگئے۔

ارسلان نےبیرےکو دو کپ چائے کہہ دی تھی۔ ’’سر! آپ چائے پئیں گے؟‘‘ ارسلان نے’’ساحر‘‘ سے کہا۔ ’’نہیں، میں ناشتے کےساتھ دو کپ چائے پی کر اپنا کوٹا پورا کر چُکا ہوں۔ آپ دونوں پیو۔‘‘ چائے آگئی اور ساتھ ایک الف لیلوی داستان بھی چِھڑ گئی۔ تقریباً نوّے دَہائیوں کا قصّہ تھا۔ اُس ’’لفظوں کےسوداگر‘‘کےمنہ سے لفظ نہیں، پھول جھڑتے ہیں اور پھول جیسے وہ لفظ ہی کہانیاں بُنتےجاتے ہیں۔

ان لفظوں نےہمارے کانوں کو چھوا اور ارسلان اور مَیں جیسے ساکت سے بیٹھے رہ گئے۔ بوڑھےقصّہ گو کے چہرے پر جب تھکن کے آثار نمودار ہوئے، تو اُن لفظوں کا طلسم ٹوٹا اور ہم دونوں ایک جیتی جاگتی دنیا میں واپس لوٹ آئے۔ پھر، اُس سویر جادوگر، قصّہ گو کے ساتھ ہم اُس سوئے ہوئے شہر کےسفر پر نکلے، مَیں، ارسلان، ارسلان کا دوست توقیر اور وہ فسوں گر…ہم کُل چار لوگ تھے اور اس سفر کے چار ہی پڑاؤ طے ہوئے۔

ایک پڑاؤ، زمزمہ توپ کےپاس بس کچھ لمحوں کےلیےچلتےچلتےگاڑی پہ۔ احمد شاہ درانی کی زمزمہ توپ، جسے اُس نےپانی پَت کی لڑائی میں استعمال کیاتھا۔ مَیں نے دائیں ہاتھ اشارہ کیا، ’’یہ زمزمہ توپ ہے، رڈیارڈ کپلنگ کے ناول’’کِم‘‘ کا ہیرو بچّہ کِم، اسی توپ کےاردگردکھیلا کرتا تھا۔‘‘ اَسّی سالہ ساحر نے بچّوںکی سی حیرت سے زمزمہ توپ پہ اُترتے، اُڑتےنیلے جنگلی کبوتروں کی طرف دیکھا اور مُسکرا دیا۔

دوسراپڑاؤ، سروونر کےسنگی مجسمے کے پاس تھا۔ مَیں نے بائیںطرف اشارہ کیا، ’’یہ اس شہرِ لاہور کاآخری بُت ہے، پھرشہر کے ایمان کی حرارت و حدّت نے اس شہر کے تمام بُت پگھلا دئیے۔‘‘ تیسرا پڑاؤ، اُس زندہ آدمی کی قبر کے قریب تھا، جس کی تلاش میں ہم صبح سویرے نکلے تھے۔

گلاب کے پھولوں کی دکان پرہم نے گاڑی کھڑی کی اور قبروں کی بھول بھلیّوں میں راستہ تلاش کرتے، اِدھر اُدھر بھٹکتے بالآخر وہ قبر تلاش کرنے میں کام یاب ہو ہی گئے۔ سعادت حسن منٹو کی قبر۔ منٹو جو مرچُکا ہے، مگر مَرا نہیں۔ جس کے لفظ، کتابیں، کردار اور کہانیاں سب زندہ ہیں اور ان کہانیوں کے بیچ منٹو بھی زندہ ہے، سانس لیتا ہے۔

اُس جادوگر قصّہ گو کی یہ خواہش تھی کہ منٹو کی قبر پہ حاضری دینی، فاتحہ خوانی ضرور کرنی ہے۔ چوتھا پڑاؤ، پاک ٹی ہاؤس کی نچلی منزل پہ تھا۔ جہاں ہم نےچائے پی اور سینڈوچ کھائے اور یہ یقیناً میری زندگی کی سب سے یادگار چائے تھی۔ اُسی سرخ محرابی دروازے پہ ہم نے اُس ساحرکو الوداع کہا۔ ارسلان اور قیصر نے مجھے کینٹین سےچائے پلائی اور مَیں نے چوں کہ شام میں اسپتال کا راؤنڈ بھی کرنا تھا، تو مَیں واپس آگیا۔

ارسلان احمدراٹھوراُس شام پھرپاک ٹی ہاؤس گیااور اِس بار نچلی نہیں، اوپر والی منزل پہ۔ ہال لوگوں سےکھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ یہ جادوگر قصّہ گو کاپانچواں پڑاؤ تھا، جس میں اُس جادوگر قصّہ گو، ساحر، لفظوں کےبہترین کھلاڑی، اسد محمد خاں نے اپنا افسانہ ’’باسودے کی مریم‘‘ سُنایا۔ ان کےالفاظ دوسری منزل پردھیمی آواز میں بکھر رہے تھے۔ لوگوں کا ایک جم غفیر اکٹھا تھا۔

نہ جانے کیسے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ لوگ دم بخود ’’باسودے کی مریم‘‘ کا قصّہ سُن رہے تھے۔ ہال میں بیٹھےاکثر لوگ رو رہےتھے اور تالیاں بھی پیٹ رہے تھے اور… مجھے آج تک دُکھ ہے کہ اُس پانچویں پڑاؤ میں، مَیں کیوں شامل نہیں تھا۔