صدر علوی کے نام محبت بھرے خط کا قصہ

November 19, 2019

زمانہ طالب علمی میں ہم گورنمنٹ کالج لاہور کے نیو ہوسٹل میں رہتے تھے۔ ہمارے ہوسٹل میں ٹیلی فون کرنے کی سہولت مخصوص وقت کیلئے میسر ہوتی تھی، اس لئے دلدار قسم کے لڑکوں کو اکثر فون کرنے کے لئے باہر کا رخ کرنا پڑتا تھا،

اتفاق سے میرا شمار بھی ایسے ہی لڑکوں میں ہوتا تھا جو رات گئے لمبی ٹیلی فون کال کرنے کے نیک مقصد کے تحت مال روڈ سے ہوتے ہوئے جی پی او کے سامنے پی ٹی سی ایل بلڈنگ کا رخ کرتے، جہاں پہلے مخصوص سکے لینا پڑتے پھر ان سکوں کو بوتھ میں ڈال کر فون کا فریضہ ادا کیا جاتا۔ ہمیں آتے جاتے جی پی او کی رعب دار عمارت کے پاس سے گزرنا پڑتا۔

اس عمارت کے دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ ہے جہاں فیصلے آنے پر ماتھے چومے جاتے ہیں یا پھر غصے کا اظہار کیا جاتا ہے مگر ہمیں عدالتوں پر زیادہ بات نہیں کرنی، ہم ڈاک پر ہی گزارا کر لیتے ہیں۔ عدالتوں پر بات کرنے کی قیمت فردوس عاشق اعوان اور غلام سرور خان سے پوچھی جا سکتی ہے، دونوں عدالت سے معافی مانگ چکے ہیں اب منظوری کیلئے وکیلانہ مہارتوں کے علاوہ دن رات دعائیں کر رہے ہیں کہ ’’ساری معافی قبول ہو جائے‘‘۔

مال روڈ لاہور پر جی پی او کی شاندار عمارت انگریز دور میں 1887ء میں بنائی گئی تھی۔ انگریزوں نے ہندوستان میں کئی سماجی اور سرکاری اصلاحات کیں، ڈاک کے نظام کی بہتری کیلئے بھی انہوں نے نہ صرف اصلاحات کیں بلکہ برصغیر کے طول وعرض میں بے شمار ڈاکخانے بنائے۔

پورا نیٹ ورک قائم کرنے کے بعد عملے کی تربیت کر دی گئی، محکمے کیلئے قوانین وضع کر دیے گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد محکمہ ڈاک قائم رہا، قوانین بھی وہی رہے، کسی نے اس محکمے کو جدید تقاضوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، نتیجتاً شکایات کے انبار لگتے رہے،

کسی نے شکایات دور کرنے کی بھی کوشش نہیں کی پھر ایک روز ایک شکایت نامہ، جسے میں محبت نامہ کہتا ہوں، صدر مملکت عارف علوی کے نام آگیا۔ اس محبت نامے کا جواب انہوں نے پوری محبت سے دیا جس سے مستقبل میں شکایات کا طولانی سفر نہیں رہے گا۔

محکمہ ڈاک سے لوگوں کو ایک عرصے سے شکایت ہے کہ ان کے خطوط بروقت نہیں پہنچتے، اکثر غائب ہو جاتے ہیں یا پھر کھلے ہوئے ملتے ہیں، ان کی قیمتی اشیاء گم ہو جاتی ہیں اور ایسی صورت میں انہیں رُلنا پڑتا ہے محکمہ کوئی خاص توجہ نہیں دیتا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اس جدید ترین دور میں کیوں ڈاک پر لکھ رہا ہوں؟ ہمارے محکمہ ڈاک کی ناقص کارکردگی کے باعث پرائیویٹ سیکٹر میں لوگ آگے بڑھے مگر امریکہ میں پرائیویٹ سیکٹر ہونے کے باوجود وہاں یو ایس میل پوری آب و تاب سے زندہ ہے مگر ہمارا محکمہ ڈاک ہچکیاں لے رہا ہے۔

وفاقی محتسب کو ایک صارف نے شکایت کی کہ ’’اس کا ایک رجسٹرڈ پارسل جس میں اٹھارہ ہزار روپے کے زیورات تھے، محکمے کی غفلت سے گم ہو گیا مگر محکمہ میری شکایت کا ازالہ نہیں کر سکا‘‘۔ وفاقی محتسب نے اس پر کارروائی کی،

دونوں اطراف کا موقف سنا اس دوران محکمہ ڈاک کے افسران نے بتایا کہ اس شخص کے نقصان کے ازالے کیلئے ایک ہزار روپے منظور کیے گئے ہیں، ساتھ ہی یہ نکتہ بیان کر دیا کہ دو ہزار سے زائد مالیت کی اشیاء کی انشورنس لازمی ہوتی ہے، اس پر شکایت کنندہ نے عمل نہیں کیا۔ محکمے کے افسران نے وفاقی محتسب کے روبرو اسے مجرم بنانے کی کوشش کی جس کا مال گم ہوا تھا۔ وفاقی محتسب سید طاہر شہباز سے رہا نہ گیا، انہوں نے محکمہ ڈاک کو ہدایت کی کہ وہ شکایت کرنے والے کو 30ہزار روپے ادا کریں۔

محکمہ ڈاک کے ضدی افسران ایک مرتبہ پھر شکایت کے ازالے کیلئے تیار نہ ہوئے اور وفاقی محتسب کے فیصلے کے خلاف اپیل لیکر ایوانِ صدر پہنچ گئے۔

صدر مملکت عارف علوی نے تسلی سے اس پورے کیس کو دیکھا تو انہیں بڑی دلچسپ صورتحال نظر آئی یعنی وفاقی محتسب نے کہا تھا کہ شکایت کنندہ کو تیس ہزار روپے ادا کر دیے جائیں مگر یہ تیس ہزار ادا نہ کرنیوالے افسران جو مختلف اوقات میں وفاقی محتسب کے ہاں پیش ہوئے، نے ٹی اے، ڈی اے کی مد میں کئی تیس ہزار خرچ کر دیے۔ محکمہ ڈاک ہی نہیں ہمارے کئی محکمے ایک روپیہ بچانے کے چکر میں ایک لاکھ خرچ کر دیتے ہیں۔

خواتین و حضرات! ڈاکٹر عارف علوی نے محکمہ ڈاک کی اپیل مسترد کر دی اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کر دی کہ مجھے یہ رپورٹ بھی دی جائے کہ محکمہ ڈاک کے افسران نے اس کیس میں ٹی اے، ڈی اے اور الائونسز کے علاوہ دیگر اخراجات کی مد میں کتنا خرچہ کیا ہے،

پارسل گم کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے تاکہ انہیں غفلت کی سزا مل سکے۔ محکمے نے عہدِ حاضر کے مطابق قوانین کیوں نہیں بنائے۔ محکمہ ڈاک کو جدید تقاضوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ صدرِ مملکت نے وزیر کو باخبر رکھنے کی بھی ہدایت کر دی۔

صدر نے عوامی مفاد کے تحت جس طرح سرکاری اہلکاروں کے جھوٹ کو بے نقاب کیا ہے ان سے حساب مانگا ہے اور آئندہ عوامی شکایات کے ازالے کو یقینی بنا دیا ہے اس سے آپ لوگوں کو حوصلہ ہونا چاہئے، اگر آپ کو بھی کوئی شکایت ہے تو ایک محبت نامہ صدرِ مملکت کو ارسال کریں محبت کا جواب محبت سے آئے گا، بقول اظہر قسیم صدیقی؎

تیرا خط ملا تو خدا گواہ، میری شامِ غم کی سحر ہوئی

تیرے حال سے تھا میں بے خبر، مجھے بے خبر کی خبر ہوئی