روشنی کی کرن

February 24, 2013

بہت سی چیزیں دیکھنے میں نہایت خوبصورت اور خوشنما لگتی ہیں لیکن انہیں حاصل کر لیا جائے تو اُن کے حسن کا راز فاش ہو جاتا ہے۔ بہت سے پکوان چکھنے میں بڑے مزیدار لگتے ہیں لیکن اُنہیں کھایا جائے تو وہ اپنا ذائقہ کھو دیتے ہیں۔ یہی حال عہدوں کا ہے۔ عہدے دور سے بڑے پُرکشش لگتے ہیں لیکن جب انہیں حاصل کر لیا جائے تو بس دُور کی کشش ہی اچھی لگتی ہے۔ اس کے باوجود انہیں حاصل کرنے کے لئے دوڑ لگی رہتی ہے اور لوگ چھوٹا موٹا عہدہ پا کر یوں محسوس کرتے ہیں جیسے کوہ ہمالیہ پر سوار ہو گئے ہوں۔ کوہ ہمالیہ پر کھڑے انسان کو نیچے چلتے پھرتے انسان اپنے اصلی قد سے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ دراصل یہ نظر کا دھوکہ ہوتا ہے انسان زندگی بھر نظر کے دھوکے کھاتا ہی رہتا ہے۔ اللہ پاک کا کرم ہے کہ میں نے ”مختصر“ سی زندگی میں نیچے سے لے کر اعلیٰ ترین کرسی تک بڑے عہدے دیکھے، بڑی اور چھوٹی ہر قسم کی کرسیاں دیکھیں اور ہر کرسی پر بیٹھنے سے پہلے اپنے آپ کو سمجھایا کہ اس کرسی پر جو تمہیں انسانی ڈھانچے نظر آ رہے ہیں یہ سب وہ لوگ ہیں جو تم سے پہلے اس پر برا جمان رہے۔ کل کو تم بھی ان ڈھانچوں میں شامل ہو جاؤ گے۔ کرسی کسی سے وفا نہیں کرتی۔ ہاں وفا کرتا ہے انسان کا کردار، اصول، انصاف اور اخلاق۔ میں نے حسن اخلاق نہیں لکھا کیونکہ وہ بڑی اونچی منزل ہے اور اُسے حاصل کرنے کے لئے نفس بھی مارنا پڑتا ہے اور حب الٰہی کا ”عشق“ بھی پالنا پڑتا ہے۔ نفس بڑی وسیع ٹرم اور اصطلاح ہے۔ نفس مارنے کا مطلب بے لگام دنیاوی خواہشات، ہوس، غرور، غصہ، نفرت، بغض ، حسد، احساس برتری ، نمودو نمائش اور اسی طرح کے سفلی جذبات مارنا ہے اور پھر احترام انسانیت کا سبق پڑھنا اور سینے سے لگانا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ نفس مارنا عام انسان کے بس کا روگ نہیں کیونکہ لوگ نفس کے غلام، خواہشات و ہوس کے تابع مہمل یعنی اندھے قیدی ہوتے ہیں۔ اس راہ پہ صرف وہی چلتے ہیں جنہیں قربِ الٰہی کی تلاش یا آرزو بے چین رکھتی ہے اور جنہیں عرف عام میں صوفی کہا جاتا ہے۔ اپنے اردگرد اور اپنے اندر نگاہ ڈالئے تو محسوس ہو گا کہ لوگ مادی خواہشات اور ہوس کے اس قدر مخلص اسیر بن چکے ہیں کہ انہیں یہ احساس ہی نہیں رہا کہ وہ اپنے آقا نہیں بلکہ اپنے غلام ہیں اور یہ کہ اُن پر دنیاوی خواہشات سواری کر رہی ہیں جبکہ اُن کی اپنی حیثیت محض اُس گھوڑے کی سی ہے جس کی باگیں کسی اور کے ہاتھوں میں ہوں۔ بات دور نکل گئی ۔ مجھے عظیم صوفی شاعر اور ولی اللہ حضرت بلھے شاہ  کے اشعار یاد آ رہے ہیں۔ آپ بھی پڑھ لیجئے
رب رب کردے بڈھے ہو گئے، ملاں پنڈت سارے
رب دا کھوج کھرا نہ لبھا، سجدے کر کر ہارے
رب تے تیرے اندر وسدا، وچ قرآن اشارے
بلھے شاہ رب اوہنوں مل سی جیہڑا اپنے نفس نوں مارے
مختصر یہ کہ بقول بلھے شاہ رب انسان کے اندر بستا ہے لیکن اندر بسنے کے باوجود ہر کسی کو نہیں ملتا، سجدے کر کر کے بھی نہیں ملتا رب صرف انہیں ملتا ہے جو اپنا نفس مار لیتے ہیں۔ بات اس لئے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ نفس کا روح سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور روح امر ربی ہے یعنی روح میں خالق حقیقی کے نور کی کرن موجود ہوتی ہے جو نفس کی غلاظت تلے دب جاتی ہے۔ اگر کوشش کر کے اوپر سے نفس کی غلاظت صاف کر دیں تو روح کے آئینے میں نورِ الٰہی کی روشنی نظر آنے لگتی ہے اسی لئے بلھے شاہ جیسے صاحب باطن اور صاحب نگاہ کا کہنا ہے کہ دراصل رب تو انسان کے اندر بستا ہے جبکہ انسان اسے باہر ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ بابا بلھے شاہ نے ٹھیک کہا ہے کہ خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید میں اس کے واضح اشارے ملتے ہیں۔ اب آپ سمجھے کہ نفس مارنے کو کیوں عظیم ترین جہاد یعنی جہاد اکبر قرار دیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا کو فتح کرنا آسان ہے لیکن اپنے آپ کو فتح کرنا مشکل ہے۔ دنیا کو فتح تلوار اور عسکری قوت سے کیا جاتا ہے جبکہ اپنے آپ کو تلوار یا ایٹم بم سے فتح نہیں کیا جا سکتا۔ انسان خود کو فتح کرتا ہے یعنی اپنی شخصیت کا حاکم تب بنتا ہے جب نفسانی و مادی خواہشات سے آزاد ہو جائے۔ نفسانی و مادی خواہشات تب قابو میں آتی ہیں جب اُنہیں عشق الٰہی کے شکنجے میں کسا جائے اور شریعت محمدی کے سانچے میں ڈھالا جائے۔ جب ہر کام اور ہر قدم کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور خالق حقیقی کی خوشنودی ہو۔ یہ بڑی کٹھن منزل ہے اور اسی لئے اسے جہاد کا درجہ دیا گیا ہے۔ تمام اولیاء کرام اور صوفی حضرات یہی جہاد کر کے مجاہد بنے۔ جب وہ مجاہد بن گئے اور انہوں نے اپنے آپ کو پوری طرح فتح کر لیا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اُنہیں وہ نگاہ عطا کر دی جس کی روشنی اور قوت سے وہ دوسروں کو فتح کر سکتے تھے۔ وہ جس پر نگاہ ڈالتے اُس کے باطن میں روشنی کی شمع جلا دیتے، اُس کی کایا پلٹ دیتے، اُس کی سوچ اور ارادے بدل دیتے۔ بات سیدھی سی ہے اور اسے ہی ہم کرامت کہتے ہیں۔ صاحب باطن و نگاہ اپنی نظر سے نفس کی غلاظت مٹا دیتا ہے اور اس غلاظت کے ہٹتے ہی انسانی روح میں پوشیدہ نور الٰہی کی روشنی انسانی باطن پر غالب آ جاتی ہے، اُس پر حقیقتیں آشکار ہو جاتی ہیں اور اس کی قلبی کیفیت بدل جاتی ہے۔ پھر انسان اپنی غلامی کی زنجیریں توڑ کر اپنا حاکم بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو اپنا حاکم بنا کر ہی دنیا میں بھیجتے ہیں انسان آنکھیں کھولتے ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات کا محکوم بنتا چلا جاتا ہے۔ پھر توکل اور منشائے الٰہی سے باغی ہو جاتا ہے۔ یہیں سے نفس کی پرورش کی ابتدا ہوتی ہے پھر نفس وقت کے ساتھ موٹا اور طاقتور ہو جاتا ہے حتیٰ کہ روح سے بھی زیادہ طاقتور ہو جاتاہے۔
یہاں تک لکھ چکا ہوں تو ”اندر“ سے آواز آ رہی ہے کہ اوروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت۔ لکھے تو جا رہے ہو جبکہ تم خود اس منزل سے کوسوں دور ہو ۔ بقول اقبال
گفتار کا غازی تو وہ بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
سوچتا ہوں کہ بے شک میں اس منزل سے کوسوں دور ہوں ، بے شک میں گم کردہ راہ ہوں لیکن راستہ بتانے میں کیا حرج ہے؟ علم اور عمل دو الگ الگ شعبے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ عالم عامل بھی ہو اور عامل عالم بھی ہو۔ جب علم اور عمل یکجا ہو جائیں تو انسان ولی اللہ۔ اللہ کا دوست بن جاتا ہے۔

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ