لاہور کا ادبی میلہ

February 24, 2013

لاہور میں ادبی میلے کا آغاز ہو چکا ہے اور جس انداز میں لوگ ذوق و شوق سے اس میں شرکت کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورتحال ادب کے لحاظ سے اتنی بھی خراب نہیں۔ ہاں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اس بار شرکت کرنے والے اور سامعین دونوں میں انگریزی ادب یا انگریزی زبان میں لکھی گئی کتابیں زیادہ ہیں۔ یہ ہمارے لئے آئندہ آنے والے دنوں میں ایک تصویر بھی ہو سکتی ہے کہ جب شاید زیادہ تر لوگ انگریزی زبان میں لکھی گئی کتابوں کی وجہ سے انگریزی زبان ہی میں لکھنے کو ترجیح دیں گے۔ اس بار ادبی میلے میں طارق علی، عمر وڑائچ، حمید ہارون، دانیال معین الدین، ایبا کوچ، جیت تھایل، ایچ ایم نقوی، اوون بٹ جونز، ندیم اسلم، ڈک لین والش، چکی سرکار، مونی محسن، مشرف علی فاروقی، عائشہ جلال، فرانسس روبنس، محمد حنیف، شہزاد حیدر، رضا رومی، محمود جلال، انعم زکریا، کنزہ جاوید، بیپسی سدوا، رافع عالم، خالد احمد اور سلمی دباغ ایسے نام ہیں، ایک نشست میں انتظار حسین اور زہرہ نگاہ کا نام بھی سامنے آیا لیکن وہ بھی شاید ان کی کتابوں کے انگریزی ترجمے کی وجہ ہے۔ اس موقع پر کئی کتابوں کی افتتاحی تقریب بھی ہوئی اور ہو گی اور لکھاریوں کی موجودگی کے باعث شرکت کرنے والوں کے لئے دلچسپی کا سامان بڑھ جائے گا کہ وہ لکھاریوں کے دستخط کتابوں پر لے سکیں گے۔
بہت سی کتابوں کے درمیان ایک کتاب جس نے فوری طور پر میری توجہ حاصل کی وہ محمد حنیف کی "The Baloch who is not Missing" ہے۔ محمد حنیف اپنی پہلی دو کتابوں "A Case of exploding Mangoes" اور "Our Lady of Alice Bhatti" کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں ۔ ان کی نئی کتاب "The Baloch who is not Missing" شاید ان بلوچوں کی آواز ہمارے مین سٹریم میڈیا اور عوام تک موثر انداز میں پہنچا پائے جن کے بارے میں بلوچوں کو یہ گلہ ہے کہ ہمارے لوگ بلوچوں پر ہونے والے ظلم اور تشدد میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ ہمارے میڈیا اور عوام بلوچوں کے بقول یا تو بلوچوں پر ہونے والے ظلم کے بارے میں خاموش رہتے ہیں یا اس ظلم کی کوئی نہ کوئی توجیح پیش کرنے لگتے ہیں۔ زیادتی کی بات یہ ہے کہ خود بلوچستان سے منتخب ہو کر حکومت بنانے والے رئیسانی جیسے لوگ جب کرپشن کی سیاست میں زیادہ دلچسپی لینے لگیں تو بلوچستان کے لوگوں کے مسائل سننے والا کوئی نہیں رہتا، ایسے میں محمد حنیف کی کتاب ایک بہت بڑی جرات کا کارنامہ ہے، یہ ایک طرح سے "Human Rights Commission of Pakistan" کی رپورٹ ہے جو انہوں نے ایک پمفلٹ میں شائع کی ہے۔ یہ رپورٹ بلوچوں پر ہونے والے ظلم و بربریت اور ان کے ساتھ ہونے والے دھوکوں کی داستان ہے جو بلوچوں کے حوالے سے بننے والی تصویر کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک ایسی تصویر جو دل ہلا دینے والی ہے۔
یہ رپورٹ جلیل ریکی، بلال مینگل اور فرزانہ مجید کے حوالے سے سامنے آنے والے واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ فرزانہ مجید ایک غائب ہو جانے والے بلوچ ذاکر مجید کی بڑی بہن ہیں اور ان کی یہ جدوجہد بلوچوں کی جدوجہد میں اٹھنے والی ایک نئی آواز ہے۔ اس لئے بھی کہ آج سے پہلے بلوچوں میں اٹھنے والی آوازوں میں کوئی عورت شامل نہیں تھی، یہ صرف ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کی وجہ سے ہوا کہ انہوں نے بھی یہ سوچا کہ اب وقت ہے کہ اٹھ کھڑا ہوا جائے۔
انہی ادیبوں میں سے ایک بشارت پیر بھی ہیں جن کی کتاب "Curfewed Night" کشمیر میں رہنے والے مسلمانوں اور ان کی بھارت کے بارے میں سوچ کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ کتاب ان Tense لمحوں میں شروع ہوتی ہے جب 1986ء میں پاکستان اور ہندوستان شارجہ میں کرکٹ کے میدان میں ٹکراتے ہیں۔ چیتن شرما کے ہاتھ میں گیند ہے اور سامنے جاوید میانداد کھڑے ہیں، آخری بال پر چیتن شرما یہ سوچ کر فل ٹاس کرواتے ہیں کہ میانداد اس کا اندازہ نہیں کر رہے ہوں گے لیکن ان کی تدبیر الٹی پڑتی ہے اور میانداد اسی آخری بال پر چھکا لگا کر پاکستان کو فتح سے ہمکنار کر جاتے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کے لئے اس سے زیادہ خوشی کی خبر ہو ہی نہیں سکتی، ہر طرف پاکستان زندہ باد کے نعرے کی آواز گونجتی ہے اور پاکستان کے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں۔ یہ بات ہندوؤں کو ہضم نہیں ہوتی، کشمیر کی صورتحال میں آ کر دیکھیں تو ہر میچ اسی طرح کے نتیجے پر ختم ہوتا ہے۔ پاکستان کی فتح کشمیریوں کو اپنی فتح لگتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ جاننے کیلئے بشارت پیر کی کتاب پڑھنا بہت ضروری ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بھارت کا خوش آئند خواب کشمیریوں کے لئے ایک بھیانک خواب جیسا ہے، بشارت پیر اپنی کتاب میں کشمیریوں کے خواب کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ وہ کس طرح کا مستقبل چاہتے ہیں؟ ان کی خواہشات کیا ہیں؟ وہ اپنی تقدیر کیوں پاکستان کے ساتھ لگی دیکھنا چاہتے ہیں؟ اور پھر یہ بھی کہ ان کے خواب کس طرح چکنا چور ہوتے ہیں؟ ان کو کن وحشتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ بشارت پیر اپنے اس کزن کا بھی ذکر کرتے ہیں جو ایک دن ایسی ہی وحشتوں کا شکار ہو کربارڈر کراس کر کے Militant بننے کے لئے پاکستان چلا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی خواہش ہے کہ جوکبھی خود بشارت پیر کے اپنے اندر کروٹیں لیتی رہی ہے۔ وہ اپنے اندر ہونے والی ان تبدیلیوں کا بھی ذکر کر تے ہیں کہ جو گاندھی، جواہر لال نہرو اور دلائی لامہ کی بدولت ہوئیں کہ جس کی بدولت انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا کام ایک رائٹر بن کر بھی انجام دے سکتے ہیں۔
بشارت پیر نے اپنی کتاب کے لئے بہت سے لوگوں کے انٹرویو کئے ہیں، ان میں ایک ایسی نوجوان دلہن کا انٹرویو بھی ہے کہ جسے اس کی شادی کے دن سکیورٹی فورسز کے لوگوں نے ریپ کر دیا اور ایک ایسے نوجوان کے والدین سے بھی جو صرف اس شک کی بنیاد پر اٹھا لیا گیا کہ اس کا تعلق Militants سے تھا، اور پھر اس کے والدین اس کو دوبارہ کبھی نہیں ڈھونڈ پائے۔ اس تمام کے باوجود بشارت پیر مایوس نہیں۔ وہ لائن آف کنٹرول پر ملے کشمیریوں کے ہاتھوں کو ملتا اور پھر آہستہ آہستہ اس لائن آف کنٹرول کو غائب ہوتے دیکھتا ہے۔
لاہور کا ادبی میلہ آپ کو اور بھی بہت سے رائٹرز اور ان کی کتابوں سے روشناس کروائے گا، شرط صرف یہاں آنے کی ہے۔