ناروے، قرآن کی بے حرمتی، مسلمانوں نے قانونی مدد لے لی

November 24, 2019

ناروے کے صوبہ ویسٹ اگدر کے شہر کرستیان ساند میں مسلمانوں کی تنظیم ’مسلم یونین آف آگدر‘ نے قرآن کی بے حرمتی کرنے والے متعصب شخص ’لارش تھورسن‘ کو سخت سزا دلوانے کے لیے ایک ماہر قانون داں کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔

کرستیان ساند میں مقیم مسلم یونین آف آگدر کے رکن اور پاکستانی نژاد چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ محمد الیاس نے نمائندہ ’جنگ‘ کو بتایا کہ پولیس نے اس واقعے کے حوالے سے لارش تھورسن پر چارجز لگا دیئے ہیں اور اسی بنا پر اس پر مقدمہ چلایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تنظیم مسلم یونین آف آگدر نے بھی اس مقصد کے لیے ایک وکیل کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ اس فسادی شخص کو اس مذموم حرکت پر زیادہ سے زیادہ سزا مل سکے۔

محمد الیاس نے کہا کہ اکمل علی کی سربراہی میں ہماری تنظیم نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام مخالف اس انتہاپسند اور متعصب تنظیم پر پابندی کے لیے بھی درخواست دائر کی جائے گی۔

بقول ان کے تنظیم ’سیان‘ اور اس کے عہدیدار غیر مقبول لوگ ہیں اور وہ ناروے کے مہذب معاشرے میں اسلام مخالف مہم چلا کر سستی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کرستیان شہر کی سماجی اور ثقافتی تنظیموں کے لوگ اس انتہا پسند تنظیم کے افراد کو ان کے متعصبانہ رویّے کی وجہ سے کسی بھی پروگرام میں مدعو نہیں کرتے۔

محمد الیاس گزشتہ کئی سالوں سے کرستیان ساند میں رہائش پذیر ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کے دوران ’سیان‘ کے لوگ اس انتظار میں تھے کہ کوئی ان پر حملہ آور ہو تاکہ وہ اس سے یورپی معاشرے میں یہ تاثر ابھاریں اور ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ مسلمان کتنے مشتعل اور انتہا پسند ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے وہ لارش تھورسن کے کیمرے سے بنی ہوئی یک طرفہ ویڈیو ہے، جس میں یہ دکھائی دیا گیا ہے کہ عمر دھابہ اور کچھ دیگر نوجوان اس شخص پر حملہ آور ہو رہے ہیں جبکہ ایک دوسری ویڈیو موجود ہے جسے سوشل میڈیا پر زیادہ نہیں دکھایا گیا جس میں پولیس اس شخص کو روکنے کے لیے چوکنا کھڑی ہے اوراس کی اس حرکت کے بعد نذرِ آتش کیے گئے قرآن کے نسخے سے آگ بجھا رہی ہے۔

محمد الیاس نے کہا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پولیس قرآن کی بے حرمتی کو روکنے کے لیے تیار تھی جبکہ اس شخص نے پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اچانک ایک اور نسخہ نکال کر اسے نذرِ آتش کرنا شروع کر دیا۔

پاکستانی نژاد محمد الیاس کا کہنا ہے کہ کرستیان ساند کی کمیون پولیس اور اہم سماجی تنظیموں نے اس واقعے کے بعد مسلمانوں سے یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جمعے کی نماز کے دوران کرستیان کی جامعہ مسجد کے باہر مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے متعدد نارویجن لوگ مسلمانوں سے ہمدردی کے لیے بارش کے دوران بھی کھڑے رہے، ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈز تھے جن پر مسلمانوں سے ہمدردی کے لیے نارویجن زبان میں یہ جملہ ’’ہم آپ کے ساتھ ہیں‘‘ لکھا تھا۔

اس واقعے کے بعد ناروے کی پولیس کمشنر مس بنڈیکٹ بیورنلاند نے پولیس فورس کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ ہر صورت عوامی مقامات پر قرآن کی بے حرمتی کو روکیں، اس بیان میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ قرآن سمیت ہر قسم کی مذہبی علامت کی بے حرمتی کو روکا جائے گا۔

پولیس چیف نے ایک ویب سائٹ کو بتایا کہ قرآن کی بے حرمتی کو نفرت پیدا کرنے جیسے اقدامات کے انسداد کے بارے میں موجود ضوابط ’پینل کوڈ‘ کی دفعہ 185 کے زمرے میں دیکھا جائے گا۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ناروے کی حکومت نے سیکشن 185 کی نئی تشریح کی ہے جس کے تحت تمام مذہبی کتابوں بشمول قران کریم کا جلانا قابلِ نفرت عمل تصور کیا جائے گا۔

بعض ماہرین کے بقول چونکہ اس عمل سے معاشرے میں تشدد اور دہشت پھیلنے کا خدشہ ہے لہٰذا اس جرم پر دو سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

ناروے میں اسلامک کلچرل سینٹر سے تعلق رکھنے والے مذہبی اسکالر فضل ہادی حسن نے قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے پر انتہائی افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ناروے ایک پرامن ملک ہے لیکن بعض شرپسند عناصر اس طرح کی مذموم حرکات کر کے اس ملک کی خوشگوار فضاء کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ناروے کی خفیہ پولیس پی ایس ٹی نے بھی خبردار کیا ہے کہ قرآن کی بے حرمتی کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

ادھر قرآن پاک کی بے حرمتی روکنے والے شامی نژاد نوجوان عمر دھابہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک پیغام دیا ہے کہ اگر پولیس اس شخص کو چند لمحات قبل قرآن جلانے سے روک لیتی تو میں ہرگز اسے روکنے کے لیے ہاتھا پائی نہ کرتا۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے کے دوران لارش تھورسن نامی شخص اور اس کے چند ساتھیوں نے جن کا تعلق ایک غیر مقبول اسلام مخالف متعصب تنظیم ’سیان‘ سے ہے، ناروے کے جنوبی شہر کرستیان ساند کے ایک پر رونق علاقے میں پہلے ایک مجمع لگایا اور پھر لوگوں کے سامنے قرآن کریم کو آگ لگا کر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش کی۔

کرستیان ساند کی کمیونٹی اور پولیس نے اس انتہا پسند تنظیم کے سربراہ ’ارنے تھور‘ کو اس شرط پر مظاہرہ کرنے کی اجازت دی تھی کہ وہ قرآن پاک کی بے حرمتی نہیں کرے گا، اگرچہ اس شخص نے مظاہرے میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ چونکہ اسے مقامی حکومت نے قرآن کو نذرِ آتش کرنے سے منع کیا ہے لہٰذا وہ قرآن کو کوڑے کی ٹوکری میں پھینک رہا ہے۔

اس کی تقریر جاری تھی کہ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے شخص ’لارش تھورسن‘ نے اچانک قرآن کا ایک نسخہ سامنے لا کر اسے جلانا شروع کر دیا جسے روکنے کے لیے شامی نژاد نوجوان عمر دھابہ اور کچھ دیگر لڑکے آگے آئے۔

پولیس نے انہیں وہیں پر دبوچ لیا اور قرآن کی بے حرمتی کرنے والے شخص لارش تھورسن کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔