تھرپارکر اور ویکسی نیشن

December 01, 2019

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے میانوالی میں زچہ بچہ اسپتال کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ نواز شریف کے بارے میں انہیں دی گئی رپورٹ میں تو کہا گیا تھا کہ انہیں 15بیماریاں ہیں، ہارٹ ٹھیک نہیں، شوگر کا مرض لاحق ہے، پلیٹ لیٹس بھی کم ہیں، مریض کا اتنا برا حال ہے کہ کسی بھی وقت مر سکتا ہے اور اس کا علاج پاکستان میں نہیں ہو سکتا۔ نواز شریف کا سب کچھ خراب تھا لیکن سیڑھیاں چڑھتے دیکھا تو کہا کہ اللہ تیری شان ہے۔ سوچ رہا ہوں لندن کی ہوا لگی یا جہاز دیکھ کر مریض ایک دم ٹھیک ہو گیا۔ اس کی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر میڈیکل بورڈ بھی تو پی ٹی آئی کی حکومت نے بنایا تھا اور پنجاب کی وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی اس حوالے سے کہا کہ مریض کی صورت حال اچھی نہیں۔ عموماً جو میڈیکل بورڈ بنائے جاتے ہیں ان کا سربراہ فزیشن ہوتا ہے۔ یہ بورڈ نواز شریف نے اپنی مرضی سے نہیں بنایا تھا پھر عمران خان کا یہ کہنا کہ تحقیقات ہونی چاہئے، سمجھ سے باہر ہے۔

پہلے تو عمران خان اپنی وزیر صحت سے معلوم کریں کہ انہوں نے یہ بورڈ کن بنیادوں پر بنایا تھا اور اس میں جو ڈاکٹرز شامل تھے ان میں کس کس ڈاکٹر کی کیا مہارت تھی۔ ضرور تحقیقات کی جائے اور معلوم کیا جائے کہ جو رپورٹیں تیار کی گئیں ان کی اصل حقیقت کیا ہے؟ نواز شریف کو ان رپورٹوں میں جس قدر بیمار ظاہر کیا گیا تھا انہیں تو لندن پہنچتے ہی سیدھا اسپتال میں داخل کر لینا چاہئے تھا۔ وہ تو ایئرپورٹ سے سیدھا اپنے بیٹے کے 8ارب روپے کے فلیٹ میں چلے گئے اور تاحال وہ کسی اسپتال میں داخل نہیں۔ اگر پاکستان میں بیماری بہت شدت کی تھی اور یہاں پر وہ سروسز اسپتال میں سولہ دن سے داخل تھے تو پھر انہیں وہاں بھی کسی اسپتال میں جانا چاہئے تھا۔ ہم تو پہلے بھی کہہ چکے ہیں عمران خان ضرور تحقیقات کرائیں، کئی کہانیاں اور الف لیلہ داستانیں سامنے آئیں گی، جس طرح سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار لندن جا کر تندرست ہو گئے اور پاکستان آ کر کئی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ اب اطلاع آئی ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کی حالت بھی خراب ہے۔ خورشید شاہ پہلے ہی اسپتال میں ہیں۔ آگے چل کر پتا نہیں اور کون کون بیمار ہو کر اسپتال جائے گا۔ادھر تھرپارکر کے مٹھی اسپتال میں غذائی کمی سے مزید پانچ بچے مر گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جنوری سے لے کر آج تک 518بچے تھرپارکر میں مر چکے ہیں اور سندھ حکومت کے کان پر ابھی تک جوں نہیں رینگی۔ بلاول بھٹو نے آج تک اس حوالے سے سندھ حکومت کو کوئی ٹھوس حکم نامہ جاری نہیں کیا اور بھول کر بھی وہ مٹھی کے سرکاری اسپتال میں نہیں گئے۔ پچھلے کئی برسوں سے ہر روز ایک سے لے کر چار بچے روزانہ تھرپارکر میں غذائی کمی کا شکار ہو کر مر رہے ہیں لیکن سندھ کی حکومت نے تاحال تھرپارکر میں غذائی کمی کا شکار بچوں اور ان کی مائوں کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اصل میں یہ حاملہ مائیں خود شدید غذائی کمی کا شکار ہیں جب یہ بچوں کو جنم دیتی ہیں تو وہ پہلے ہی سے کافی کمزور اور لاغر ہوتے ہیں۔ اگر ماں صحت مند ہو گی تو بچے صحت مند پیدا ہوں گے۔ آج تک کسی حکومت نے اور خصوصاً پچھلے تیس برس سے پی پی پی کی حکمران حکومت نے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی حالانکہ وہاں پر غذائی کمی کا شکار خواتین کے لئے ایسے خوراک کے ڈپو قائم کئے جائیں جہاں پر انہیں بہترین دودھ، دوسری غذائی اجناس اور وٹامنز مل سکیں تاکہ مائیں صحت مند ہوں۔ آپ تھرپارکر جا کر دیکھیں آپ کو ایسے لگے گا جیسے یہ عورتیں کسی تنور میں سے آئی ہوں۔ ہم نے کراچی کے جناح اسپتال میں خود تھرپارکر کی عورتوں اور ان کے لاغر اور بیمار بچوں کو دیکھا ہے۔

کراچی میں فائٹ اگینسٹ ریپز اینڈ پاپولیشن کنٹرول آف اسٹریٹ ڈاگس پروگرام کے ذریعے سندھ کو آوارہ کتوں سے پاک کر دیا جائے گا۔ اب تک 34ہزار آوارہ کتوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور ایک سال کے اندر اندر 5لاکھ کتوں کو پکڑ کر پہلے ویکسی نیشن کی جائے گی پھر ان کی نس بندی کی جائے گی۔ رواں سال سندھ میں کتوں نے ایک لاکھ 86ہزار افراد کو کاٹ لیا۔ سندھ میں سگ گزیدگی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ آوارہ کتے نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں بہت بڑی تعداد میں ہیں اور ان کی تعداد کئی لاکھ بتائی جاتی ہے۔ عزیز قارئین! جن لوگوں کو آوارہ کتا کاٹ لے اور اگر اس کی ویکسی نیشن نہ کرائی جائے تو اس انسان کی موت بڑی اذیت ناک طریقے سے ہوتی ہے۔ کتوں کو ویکسین کے ایک نہیں دو ٹیکے لگانے ہوتے ہیں۔ اب اگر سندھ حکومت 5لاکھ کتوں کو پہلا ٹیکہ لگا دے گی تو دوسرے ٹیکے کے لئے کتوں کو کہاں تلاش کرے گی کیونکہ دوسرا ٹیکہ کچھ عرصہ بعد لازمی لگانا ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت جن کتوں کو انجکشن لگائے انہیں کچھ عرصہ کے لئے کسی مخصوص جگہ پر رکھے تاکہ دوسرا انجکشن لگ سکے۔ یہ ایک اور خرچہ حکومت کے سر پر آ جائے گا۔ پھر اس میں بھی گھپلے ہوں گے اور کیا پتہ کتوں کو ویکسی نیشن کی بھی جاتی ہے یا پھر کاغذوں میں 5لاکھ کتوں کو ویکسی نیشن کر دی جائے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کتوں کی نس بندی کرے یا پھر انہیں کتا مار مہم میں مار دیا جائے۔ ہر سال 5ہزار افراد کتا کاٹنے سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے کہا کہ پنجاب کے تمام سرکاری اسپتالوں میں کتا کاٹے کی ویکسین لازمی ہونی چاہئے۔ ویکسین تو بعد کی بات ہے حکومت کو پہلے تو کتا مار مہم شروع کرنی چاہئے۔ پنجاب میں بھی سینکڑوں لوگوںکو کتے کاٹ لیتے ہیں۔ دوسری جانب کراچی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں آلودہ پانی سے 6ہزار افراد کو ٹائیفائیڈ ہو گیا ہے۔ حکومت سندھ ایک کروڑ بچوں کو ٹائیفائیڈ کی ویکسین لگا رہی ہے۔ کب ایک کروڑ بچوں کو یہ ویکسین لگے گی اور کب وہ ٹائیفائیڈ سے محفوظ ہوں گے؟