عالمی اُردو کانفرنس کا دوسرا دن: ’’دبستان اردو اور بلوچ شعرا‘‘ کے موضوع پر گفتگو

December 06, 2019

بارہویں عالمی اردو کانفرنس کے ’’دبستانِ اردو اور بلوچ شعرا‘‘ سیشن میں بلوچ دانشوروں نے کہا کہ بلوچ شعراء نے ہر دور میں مظلوم طبقہ کی نمائندگی کی اور اکثر شعراء نے اردو میں شاعری کی، انہوں نے اردو پڑھی اور اردو میں لکھا بھی ہے۔ بلوچی زبان سے اردو اور اردو سے بلوچی زبان میں ترجمہ ہوا جس کو عوام نے بہت پسند کیا۔ بلوچوں کو کسی زبان سے نفرت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے: دوسرے دن کا پہلا اجلاس شعروسخن کے نام

دبستان اردو اور بلوچ شعراء کے سیشن میں افضل مراد، اے آر داد، غفور شاد اور وحید نور نے بلوچ شعراء کی اردو شاعری پر گفتگو کی۔

اس سیشن میں نظامت کے فرائض عمران ثاقب نے سر انجام دیئے۔ بلوچ دانشوروں نے شرکاء کے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔

بلوچ دانشوروں نے کہا ہے کہ بلوچ شعراء جو اردو میں شاعری کرتے ہیں ان کو وہ ماحول نہیں ملتا اس لیے ان کو مادری زبان کی طرف جانا پڑتا ہے۔ ماضی کے مقابلے آج کا کراچی اور آرٹس کونسل کافی تبدیل ہے، ہر زبان کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ عطا شاد کی جدید نظاموں میں اہمیت اسی طرح کی ہے جیسے اردو میں ن م راشد کی، عطا شاد کی شاعری ثقافت کی عکاسی ہے۔ بلوچی زبان میں لکھنے والے حساس معاملات پر لکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھبے: آرٹس کونسل میں بارہویں عالمی اردو کانفرنس کا میلہ سج گیا

بلوچ شعراء نے اردو میں اپنا کلام بھی سنایا۔

اے آر داد نے کہا کہ بلوچ شعراء نے بتایا کہ وہ اردو لکھ سکتے ہیں لیکن ان کا خیال تھا کہ بہتر اظہار وہ اپنی زبان میں ہی کر سکتے ہیں۔

غفور شاد نے کہا کہ ہمیں کسی زبان سے کوئی اختلاف نہیں ہے، ہم تو چاہتے ہیں زبانیں پروان چڑھیں اور ترقی کریں لیکن زبان کی بنیاد پر سیاست کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بلوچ شاعر بھی بہت اچھے ہیں اور خواتین شاعرہ کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے: شہناز نور اور کشمیر احمد کیلئے اعتراف کمال ایوارڈز

وحید نور نے کہا کہ کراچی بلوچوں کا بہت بڑا شہر ہے اور 35 لاکھ بلوچ اس شہر میں رہتے ہیں جبکہ کوئٹہ اور مکران بلوچوں کے اتنے بڑے شہر نہیں ہیں اور کراچی میں بلوچ شعراء کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو پروموٹ نہیں کیا گیا لیکن آرٹس کونسل آف پاکستان اور دیگر کے باعث اب بلوچ شعراء آگے آرہے ہیں۔