اردو ادب مغرب میں پھیل رہا ہے، نیویارک کو نیا لکھنو کہا جاتا ہے، عالمی اردو کانفرنس

December 07, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.

اردو ادب مغرب میںپھیل رہا ہے، نیویارک کو نیا لکھنو کہا جاتا ہے، عالمی اردو کانفرنس

کراچی(اسٹاف رپورٹر) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری بارہویں عالمی اردو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ادیبوں، شاعروں، نقادوں، صحافیوں، تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ اردو ادب مغرب میں فروغ پا رہا ہے، اردو پیار کی زبان ہے، نیویارک اردو ادب کا نیا لکھنؤ کہا جاتا ہے، اُردو کی اب کوئی پرانی بستی نہیں رہی سب کی سب نئی بستیاں ہیں ہم نئی بستیوں کا خیرمقدم کرتے ہیں، ہماری نئی بستیوں میں ایک چراغ ضرور جل رہا ہے اور وہ اُردو کا ہے، یہ پیار کی زبان ہے،ماضی میں صحافت آسان تھی، آج پابندیوں کا شکار ہے،آج کی صحافت بہت مودب ہوچکی،صحافی ہاتھ باندھے کھڑے ہوگئے۔ کانفرنس سے اشفاق حسین، رضا علی عابدی، شمیم حنفی، عارف نقوی، ریحانہ قمر، ثمن شاہ، باصر کاظمی، وکیل انصاری، عشرت معین سیما ، وفا یزداں منش، صدف مرزا، راحت زاہد نے خطاب کیا۔’’کیا ادب اور صحافت زوال کا شکار ہے؟‘‘کے عنوان سے منعقدہ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ ماضی میں صحافیوں کو کوڑے پڑتے تھے،جیلوں میں ڈالے جاتے تھے لیکن صحافت آسان تھی،آج صحافت پابندیوں کا شکار ہے اس کے باوجود پتہ نہیں چلتا کہ کس نے پابندی لگائی ہے۔ایک زمانہ تھا جب واقعی ادب اور صحافت کا بہت گہرا تعلق تھا،مولانا محمد علی جوہر ادیب و شاعر بھی تھے اور اخبار کے ایڈیٹر بھی تھے۔ماضی میں ادیب،شاعر اور صحافی جب حکمرانوں کے ساتھ بے ادبی کرتے تھے تو اسے مزاحمتی ادب اور مزاحمتی صحافت قرار دیتے تھے لیکن آج کی صحافت بہت مودب ہوچکی ہے،صحافی ہاتھ باندھے کھڑے ہوگئے ہیں۔اجلاس کی میزبانی سینئر صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے انجام دیں۔حامد میر نے کہا ہے کہ ادب میں مزاحمتی شاعری پائی جاتی ہے عمران ثاقب گوادر کا ایک نوجوان شاعر ہے جس نے لاپتہ افراد پر شاعری تحریر کی میں نے سوچا کہ وہ شاعری کسی اخبار اور ٹی وی چینل نے کیوں نشر نہیں کی ۔حامد میر نے کہا کہ فیض احمد فیض کو کوئی گرفتار کرتا تھا تو معلوم ہوتا تھا کہ انہیں کس نے گرفتار کیا ہےجالب کی گرفتاری کا پتہ تھا کہ کون لوگ انہیں گرفتار کررہے ہیں لیکن آج ادیب ،شاعر اور صحافی ریاستی جبر کا شکار ہونے کے باوجود نامعلوم افراد انہیں اس بات کا کریڈٹ نہیں دیتے کہ وہ ریاستی جبر کا شکار ہوئے ہیں۔اردو زبان کی آج کل وہیں حالت ہے جو کرکٹ کی ہےاردو زبان اس وقت بہت بڑے المیئے کا شکار ہے1973 کے آئین کے مطابق اردو کو 15 سال میں بطورسرکاری زبان رائج کرنا تھا اس کے بعد 2015 میں سپریم کورٹ آ ف پاکستان کے چیف جسٹس نے اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا فیصلہ سنایا لیکن اس کے باوجود عدالت کے فیصلے انگریزی میں آتے ہیں ،حامد میر نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں مردوں کی نسبت عورت کے لئے صحافت کرنا مشکل ہےاگر کسی پروگرام میں عاصمہ شیرازی اور منیزے جہانگیرجیسی باہمت خاتون سوال کرنے کی گستاخی کردیں توانہیں سوشل میڈیا پر مغلظات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،میں خواتین صحافی ساتھیوں کو سلام پیش کرتا ہوں ،جرت و بہادری اور گالی میں بہت فرق ہے،اردو کے ساتھ 1960 اور 1970 میں جو ہورہا تھا آج بھی وہی ہورہا ہےہم سب کو ملکر پابندیوں کے خلاف اٹھانی چاہئے۔پاکستان میں جب صحافی، شاعر و ادیب یہ پوچھیں گے کہ بتائو کہ لاپتہ افراد کہاں ہے اس وقت ہمارا ملک ترقی کرے گا۔ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ بندوق نظر نہیں آتی لیکن خوف ہے،ظلم و جبر کےاس ماحول میں جو چپ رہتا ہے ،خاموش رہتا ہے وہ سب سے بڑے مجرم ہیں۔اس موقع پر تقریب میں موجود شرکاء کی جانب سے جب لال لال لہرائے گا تب ہوش ٹھکانے آئے گا،تیز ہو تیز ہو جدوجہد تیز ہو کے نعرے بھی لگائے گئے۔تقریب میں موجود ادیب و شاعرہ کشور ناہید نے کہا کہ صرف نعروں سے تبدیلی نہیں آئے گی ہم سب کو ملکر ایک بار پھر جیل بھرنے کی ضرورت ہے سڑکوں پر نکلنے کی ضرورت ہے،انہوں نے حامد میر کو مخاطب کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ تم لوگوں نے جھوٹے سیاست دانوں کوٹیلی ویژن پربٹھایا ہوا ہوتا ہے۔ ”اردو کی نئی بستیاں“کے عنوان سے منعقدہ اجلاس میں مختلف ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں نے ان ممالک میں اردو کے فروغ کے حوالے سے آگاہ کیا۔