بیرونِ ملک قید پاکستانی

December 09, 2019

دنیا کے مختلف ملکوں کی جیلوں میں دس ہزار سے زائد پاکستانی قیدیوں کی موجودگی یقیناً فوری توجہ کا مستحق معاملہ ہے۔ سرکاری دستاویزات میں کیے گئے حالیہ انکشاف کے مطابق تین ہزار سے زائد پاکستانی شہری سعودی عرب، دو ہزار سے زائد عرب امارات، باقی افغانستان، چین، برطانیہ، امریکہ اور بعض دیگر ملکوں میں منشیات اسمگلنگ، مالی جرائم، قتل اور ریپ جیسے مقدمات میں سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ یہ صورتحال ایک طرف من حیث القوم عالمی سطح پر ہمارے لیے باعثِ پشیمانی ہے اور دوسری طرف یہ لمحہ فکریہ بھی ہے کہ ان کے پیچھے وہ مافیائیں سرگرم ہیں جو انہیں راتوں رات امیر ہو جانے کا لالچ دے کر بیرون ملک بھجواتی ہیں۔ اُن میں سرِ فہرست منشیات کے اسمگلر ہیں۔ اُن قیدیوں کے معاملات کی چھان بین کے لیے حکومتِ پاکستان کو اپنے سفارت خانوں کی وساطت سے متعلقہ ملکوں کے حکام سے رجوع کرنا چاہئے کیونکہ ان میں بےگناہوں کی موجودگی خارج از امکان نہیں۔ بعض ایسے ممالک بھی ہیں جہاں پاکستانی شہری مقامی زبان سے ناواقفیت کے باعث عدالتوں کے سامنے اطمینان بخش طور پر اپنی صفائی پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک رپورٹ میں جو گزشتہ برس منظرِ عام پر آئی تھی، تھائی لینڈ کی مختلف جیلوں میں مقید اُن پاکستانیوں کا ذکر تھا جو ا پنے سفارت خانے کی جانب سے قانونی امداد نہ ملنے کی وجہ سے طویل سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ ان لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ تھائی زبان سے ناآشنائی بتایا گیا تھا۔ حکومتِ پاکستان اپنے سفارت خانوں کو کروڑوں روپے کے فنڈ جاری کرتی ہے، بعض ملکوں میں ہزاروں پاکستانی طالب علم حصولِ تعلیم کے لیے مقیم ہیں اور متعدد وہاں جانے کی تیاریوں میں ہیں۔ پاکستانی حکام کو ان طالب علموں کی خبر گیری کا بھی مستقل بندوبست کرنا چاہئے اور قیدیوں کے معاملات سلجھانے میں بھی حسبِ ضرورت اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔