سو سالہ زندگی، ایک گیدڑ کی نظر میں!

February 28, 2013

اقبالمرحوم کی بہت سی تعلیمات بھی ”مرحوم“ ہوچکی ہیں۔ مثلاً یقین، عمل، خودی، انا، غیرت، تسخیر کائنات وغیرہ! غیرت کے متعلق تو اقبال نے کہا تھا:
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
اور یوں دوسرے بہت سے مقامات کے علاوہ اقبال سے یہاں بھی غلطی ہوگئی۔اب سروں پرتاج غیرت کی بنیاد پر نہیں پہنائے جاتے بلکہ اس سے پہلے سرکو اچھی طرح ٹٹول کر دیکھاجاتا ہے کہ کہیں اس میں غیرت نام کاکوئی سودا تو نہیں سمایا ہوا؟ اگراس میں سے تولہ بھر بھی غیرت برآمد ہوجائے تو ”امیدوار“ کے سارے نمبر کاٹ لئے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے سر کے لئے کانٹوں کاتاج تجویز کیاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں بازار میں غیرت کا مال مندا ہے بلکہ صورتحال تو کچھ یوں ہے کہ سمجھدار لوگ اس شخص کے قریب سے کنی کتراکر گزر جاتے ہیں جس کے متعلق شبہ ہو کہ اس میں غیرت کی کوئی رمق موجود ہے!
گزشتہ ہفتے میں اسلام آباد تھا۔ وہاں میری ملاقات ایک ”صاحب“ بلکہ صاحب بہادر سے ہوئی۔ انہوں نے سر پر ہیٹ پہنا ہواتھا۔ ان کے ہاتھ میں پائپ اور منہ میں انگریزی تھی۔ موصوف تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھے اور عہدے کے لحاظ سے ترقی کی کئی منزلیں طے کرچکے تھے۔ میں نے ان سے ان کی ترقی کاراز پوچھا تو بولے ”یہ سب اقبال کی تعلیمات پرعمل کرنے کا فیض ہے۔“
میں یہ سن کر بہت حیران ہوا اور پوچھا ”وہ کیسے؟“ فرمایا ”اقبال نے ایک جگہ کہاہے:
خوشامد ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
چنانچہ میں نے ان کے مشورے پر عمل کیا اور آج میرے سر پر تاج ہے۔“
میں نے کہا ”جناب! آپ کو غلطی لگی ہے۔ اقبال نے اپنے شعر میں خوشامد نہیں، غیرت کی بات ہے ہے۔ ”خوشامد“ سے تو ویسے بھی شعر کا وزن خراب ہو جاتا ہے۔“
بولے ”مجھے تو یہی بتایا گیا تھا کہ اس شعر میں اصل لفظ خوشامد ہے۔ غیرحقیقت پسند لوگوں نے اسے بدل کرغیرت کر دیاہے۔ ویسے خوشامد کے لفظ سے اگر شعر کے وزن پرزد پڑتی ہے تو غیرت سے کرسی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ لہٰذا آپ براہ ِ کرم میری یا شعر کی اصلاح کی کوشش نہ کریں۔“
مجھے اس وقت صاحب بہادر کی بات اچھی نہ لگی مگر بعد میں، میں نے غور کیا کہ تو مجھے اپنی اور اقبال کی غلطی کا احساس ہوا۔ غیرت کیا ہے محض لوگوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا ایک حربہ ہے۔ اس کے برعکس خوشامد وہ اسم اعظم ہے جس سے ترقی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ خوشامد خواہ ملکی حکمرانوں کی ہو یا غیرملکی حکمرانوں کی یہ انسان میں وہ خفیہ قوتیں پیدا کرتی ہے جن کے فوائد کا اسے علم ہی نہیں ہوتا مثلاً اس کے بے شمار فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ اس کے ذریعے جہاں ترقی کے زینے طے کرسکتے ہیں وہاں اپنے بدترین دشمن کا قلع قمع بھی اس کی خوشامد کے ذریعے کرسکتے ہیں۔ یہ نسخہ میرا آزمایا ہوا ہے۔ میں نے اپنے ایک دشمن کو جس کی ناک ٹیڑھی، آنکھیں بٹن جتنی اور رنگ تارکول سے ملتا تھا یہ یقین دلا دیا کہ روئے ارض پر اس سے حسین شخص آج تک پیدا نہیں ہوا اورحسینان ِ جہاں اس پر مرتے ہیں۔جس کی اسے خبرہی نہیں ہے۔ اس نے پوچھا ”نسرین بھی مرتی ہے؟“ میں نے کہا ”ہاں وہ تمہارے فراق میں دن رات آہیں بھرتی ہے مگر اسے جرأت نہیں ہوتی کہ وہ تم سے حال دل کہے۔ تمہارا رعب حسن اس حال دل میں رکاوٹ ہے۔“ اس پر یہ ”خوبرو“ نوجوان اگلے ہی روز اپنے اس کشتہ حسن کی خدمت میں حاضر ہوا اورکھل کر اظہار ِ عشق فرمایا۔ چنانچہ یہ جو اس کی ٹانگ اور بازو کا فریکچر ہے وہ اس واقعہ کے بعدکاہے۔یہ جو خوشامد ہے اس سے دشمن ہی کا نہیں ”دوستوں“ کا بھی قلع قلمع کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو وہ ہتھیار ہے جو سپرپاور بھی اپنے ”دوست“ کو نیچے لگانے، اس سے اپنے سار ے مقاصد پورے کرانے اور پھر اس کے بعد ڈسپوزیبل اشیا کی طرح کوڑے کے ڈبے میں پھینکنے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ دنیا کے کئی پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کے حکمران سپرپاور سے اپنے ملک کی بجائے اپنی تعریف سن کر اس وقت تک خوش ہوتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنے انجام کو نہیں پہنچ جاتے۔ خوشامد اگر تخت تک پہنچاتی ہے تو یہ اپنے وصول کنندہ کو تختے تک بھی لے جاتی ہے۔
تاہم اس گفتگو کا یہ مطلب نہیں کہ خوشامد سے بچا جائے کیونکہ اس سے بہرحال بہت سے وقتی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ بچنے کی اگر کوئی چیز ہے تو وہ غیرت ہے۔ جس پر اقبال ایسا غیرحقیقت پسند شاعر اپنی شاعری میں زور دیتا چلا آیا ہے کیونکہ غیرت میں جاں کا زیاں ہوتا ہے ۔ اس غیرت نے ٹیپو سلطان کو کیا دیا۔ اچھی خاصی حکومت کے مزے لوٹ رہا تھا، غیرت کا سودا سرمیں سمایا اور انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا۔ یہ افغان، یہ کشمیری، یہ فلسطینی ایک نکی جئی ہاں کہہ کر اپنے جسم سلامت رکھ سکتے ہیں مگر ان نادانوں کے سروں میں بھی غیرت کا کیڑا سلگتا رہتاہے اوریہ اپنے سروں پر کفن باندھ کر گھروں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ان سے پہلے ویت نامیوں نے، ایرانیوں نے، چینیوں نے، فرانسیسیوں نے، روسیوں نے اور دوسری بہت سی اقوام کے سرپھروں نے بادشاہوں کو ان کے پرتعیش محلات سے نکال باہر کیا اور یہ نہیں سوچا کہ وہ کل کے لئے اپنا آج برباد کر رہے ہیں۔ تاہم خدا کا شکر ہے کہ 9/11 کے بعد سے اس سوچ کے مضر اثرات پر بہت کام ہو رہا ہے اورلوگوں کو سمجھ آنا شروع ہوگئی ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول ہی ٹھیک ہے۔ اس اصول کے مطابق اگر جنگلوں کا نظام پوری کامیابی سے چل رہا ہے تو شہروں میں کامیابی سے کیوں نہیں اپنایا جاسکتا؟
سو برادران وطن و خواہران وطن سے میری درخواست ہے کہ وہ چھوٹے موٹے مفادات کے لئے جہاں خوشامد ایسے مجرب نسخے کو بروئے کار لائیں وہاں مفادات کے فل پیکیج اور اپنی زندگی کو خوشگوا ر بنانے کے لئے غیرت وغیرہ کے چکر میں کبھی نہ پڑیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ نصاب میں کچھ تبدیلیوں کے لئے بھرپور جدوجہد کریں مثلاً اقبال کی شاعری کو نصاب میں سے آؤٹ کرائیں۔ ڈکشنری میں سے غیرت کا لفظ خارج کرائیں اوراس طرح کے مقولوں کے خلاف آواز اٹھائیں جن کے مطابق شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے کیونکہ اس طرح کے گمراہ کن مقولوں کی تشکیل کے وقت گیدڑوں سے ان کی رائے نہیں لی گئی۔ مجھے امید ہے کہ ان لائنوں پر کام کرنے سے ہم مغرب کے لئے قابل قبول ہو جائیں گے اور اگر نہ بھی ہوئے تو بھی ایسے مواقع پر اس شاعر کی شاعری سے ہمیں حوصلہ ملے گا جس نے:
عاقبت کی خبر خدا جانے
اب تو آرام سے گزرتی ہے
کہہ کر ہمارے دلوں کی ترجمانی کا فریضہ پہلے ادا کردیا تھا۔
اور اب آخر میں جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما اور میرے دوست ڈاکٹر فرید پراچہ کا ایک خط جو قدرے تاخیر سے موصول ہوا، پیش خدمت ہے:
برادرگرامی عطا الحق قاسمی صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
آپ نے اپنے گزشتہ روزکے کالم میں تحریک انصاف کوہاٹ کے نومنتخب صدرہمایوں چچا کے حوالہ سے ہونے والی میڈیا مہم کے تناظر میں جماعت اسلامی پاکستان کے درویش صفت رہنماؤں کا تذکرہ فرمایا جس پر ہم آپکے انتہائی شکرگزار ہیں۔
بلاشبہ کسی درزی کا بطور مقامی صدر انتخاب قابل ستائش ہے لیکن یہ کہنا، سمجھنا یا بیان کرنا کہ ایسا پہلی مرتبہ ہواہے کسی صورت بھی مبنی بر حقیقت نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ جماعت اسلامی نے توصرف قیادت ہی نہیں اسمبلیوں کے لئے امیدواران کے انتخاب میں بھی کبھی کسی کے مال و دولت، کرّ و فر اور نام ونسب کو ذرہ برابراہمیت نہیں دی اور صرف صلاحیت اور صالحیت کی بنیاد پر اسمبلی امیدواران و جماعتی ذمہ داران کاانتخاب کیا ہے۔جماعت اسلامی میں موروثیت نہیں، پارٹی انتخاب کے لئے چھینا جھپٹی نہیں، کھینچا تانی اور دھڑے بندی نہیں۔ یہ دنیا کا انوکھا انتخاب ہے کہ جس میں کوئی بھی امیدوار نہیں ہوتا بلکہ عہدے کی طلب رکنیت سے ہی خارج کردیتی ہے
یہ ایسا انتخاب ہے کہ جس میں کسی بھی رکن کو ووٹ دیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے کئی اہم مقامات کے امیر امام مسجد، کسان، کاشتکار، سکول ٹیچر اور محنت کش منتخب ہوتے رہے ہیں۔ ہماری مرکزی ،صوبائی اورضلعی قیادت پر فائز 90 فیصد سے زائد ذمہ داران کا تعلق لوئر مڈل یا غریب طبقہ سے ہے۔ ہمارے ایک اہم مقام کے برسہا برس امیر رہنے اورپھر اسی علاقہ سے بلدیاتی نمائندہ منتخب ہونے والے ہمارے اہم رہنما پیشے کے لحاظ سے موچی تھے۔ میں نے خود انہیں جوتیاں گانٹھتے اور تیار کرتے ہوئے دیکھاہے۔ اپنے کرداراورعوامی خدمت کے لحاظ سے وہ اپنے علاقہ میں اتنے مقبول تھے کہ بڑے بڑے افسران ان کی بے پناہ عزت کرنے پر مجبور تھے اورکرپٹ افسران ان کے نام سے کانپتے تھے۔کراچی کے دو مرتبہ میئر بننے والے محترم عبدالستار افغانی مرحوم جوتوں کی ایک دکان پر کیشیئر تھے۔ یہ جماعت اسلامی ہی ہے کہ جس نے اتنے بڑے منصب کے لئے انہیں چنا اور پھر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کالوہا تمام اہل کراچی سے منوایا۔ وہ اڑھائی مرلہ کے مکان میں رہتے تھے۔ میئر رہے تب بھی وہی مکان تھا۔ ممبر قومی اسمبلی بنے تب بھی ان کی رہائش اسی مکان میں تھی اور جب اللہ کی طرف سے ان کا بلاوا آگیا تو ان کا جنازہ بھی اسی مکان سے نکلا۔
1970 میں ڈیرہ غازیخان سے ایم این اے منتخب ہونے اوراپنی تقاریر سے آمریت کے لئے چیلنج بننے والے ڈاکٹر نذیر شہید سائیکل پر اپنے شہر ہی نہیں ضلع کے اکثر مقامات کا دورہ کرتے تھے۔ سائیکل پر اسمبلی اجلاسوں میں شرکت کرنے کے لحاظ سے تو مسلم لیگی رہنما ایم اے حمزہ بھی معروف تھے۔ جماعت اسلامی کے رہنما اور صوبہ سرحد کے سینئر وزیر سراج الحق نے اپنے دور ِ وزارت میں پشاور سے لاہور کا سرکاری دورہ کیا تو یہ منظر بھی اہل پنجاب نے دیکھا کہ پشاور سے بس پر لاہور آنے والے وزیرنے بس سٹینڈ سے گورنر ہاؤس کے لئے رکشہ کیااور گورنر ہاؤس کے دروازے نے پہلی مرتبہ ایک رکشے کوپروٹوکول ملتے ہوئے دیکھا۔ دودھ دہی کی دکان سے روزانہ خود دودھ لے جانے والے کے بارے میں دکاندار کو کئی دنوں بعد معلوم ہوا کہ سادگی و دروشی کے پیکر یہ بزرگ وفاقی شرعی عدالت کے جج جسٹس ملک غلام علی ہیں۔
جماعت اسلامی میں تویہ مثالیں بے شمار ہیں لیکن اس طرح کے سادگی کے پیکر رہنما دیگر جماعتوں میں بھی موجود ہیں۔ دینی جماعتوں میں تو چٹائیوں پر بیٹھ کر قیادت کرنے والوں کی مثالیں عام ہیں۔ بعض اہم سیاسی جماعتوں میں بھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ یقینا سیاسی کلچر تبدیل ہو رہا ہے اور یہ خوش آئند بات ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ایک اہم موضوع کی طرف توجہ دلائی۔ کبھی موقع ملے تو کرپٹ سیاستدانوں کے مقابل میں امانت و دیانت کے پیکر سیاسی رہنماؤں اور کارکنان کا بھی تذکرہ فرمائیں کہ سیاست دانوں کے بارے میں ”ایہہ سارے اکو جہے ہوندے نیں“ کا تاثر زائل ہوسکے۔
والسلام …فرید احمد پراچہ
ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان