برطانوی انتخابات …اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا

December 10, 2019

تحریر ۔افتخار احمد چوہدری۔۔لیڈز
یہ چھ ماہ قبل کی بات ہے کہ ایک انگریز بزرگ جو روزانہ دکان پر اخبار لینے آتے تھے ،میں نے ان سے پوچھا کیا تھریسامے یورپی یونین سے علیحدگی کا معاہدہ کرپائے گی ؟ انگریزبزرگ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولے ،نہیں،بوڑھے انگریز کا خیال تھا کہ چونکہ یہ کمزور حکومت ہے اس لیے یورپی یونین سے نکلنے کے لیے ڈیل نہیں کر پائے گی، اس لیے حکومت کو قبل از وقت الیکشن کروانا پڑیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ سابق وزیر اعظم برطانیہ تھریسامے بارہا کوشش کے باوجود پارلیمنٹ سے بریگزیٹ ڈیل منظور نہیں کروا پائیں اور بالآخر انہیں وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونا پڑ ا جس کے بعد کنزرویٹو پارٹی نے بورس جانسن کو وزیر اعظم منتخب کیا ۔بورس جانسن نے 31اکتوبر کو معاہدہ یا بغیر معاہد ہ کے ہر صورت یورپی یونین سے نکلنے کا بارہا اعلان کیا مگر وہ بھی ایسا نہ کرپائے ۔نتیجتاًانہیں نئے انتخابات کی جانب جانا پڑا ۔12دسمبر برطانیہ میں عام انتخابات کا دن ہے ۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے منشور کے مطابق مہم میں مصروف ہیں ،اہم نکتہ بہرحال یورپی یونین سے علیحدگی کا ہے ،یورپی یونین سے علیحدگی کا معاہدہ برطانیہ کی معیشت کا تعین کرے گا،یورپی یونین میں شامل ممالک کے مابین کسٹم فری ٹریڈ ہوتی ہے ،علیحدگی کی صورت میں برطانیہ اس سہولت سے محروم ہو سکتا ہے ،ماہرین کے مطابق بری ڈیل کے نتیجہ میں برطانیہ کی معیشت کریش کرسکتی ہے ،نوکریوں کی تعداد کم اور اشیاء خوردونوش کی کمی ہوسکتی ہے ۔ انتخابات میں بڑا مقابلہ کنزرویٹوپارٹی اور لیبر پارٹی میں ہے تاہم دیگر چھوٹی پارٹیاں بھی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں ۔ٹوری لیڈر بورس جانسن اور لیبر لیڈر جیرمی کوربن دونوں متضاد بیانات کے ساتھ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں ۔بورس جانسن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یورپی یونین سے نکلنے کے لیے برطانیہ کے لیے بہترین ڈیل پلان کررکھی ہے ،31جنوری کو اس بہترین ڈیل کے ساتھ علیحدگی اختیار کرلی جائے گی ،بورس جانسن کے اس بیانیہ کو زیادہ پذیرائی نہیں مل رہی کیونکہ ایسے ہی بیان پر وہ پہلے عمل نہیں کر پائے تھے ۔یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالہ سے لیبر لیڈرجیرمی کوربن کا بیانیہ مختلف ہیں ،ان کے مطابق وہ وزیراعظم بننے کے بعد ایک مرتبہ پھر یورپی یونین سے علیحدگی کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے عوامی ریفرنڈم کروائیں گے ۔ جیرمی کوربن بریگزیٹ سے متعلق کنفیوژ نظر آئے ،وہ بریگزٹ کے اہم مسئلہ پر واضح پوزیشن نہیں لے پائے جس کی وجہ سے انہیں میڈیا میں سخت تنقید کا سامنا ہے ۔لیبر ل ڈیموکریٹس بریگزٹ روکنے کی کوشش میں ہے ،اسکاٹ لینڈ نیشنل پارٹی کو مستقبل بارے خدشات ہیں ،پارٹی لیڈر برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کی صورت میں اسکاٹ لینڈ میں دوبارہ ریفرنڈم کی بات کررہے ہیں ۔ حالیہ الیکشن میں بریگزٹ کے علاوہ NHS(نیشنل ہیلتھ سروسز ) سب سے زیادہ موضوع بحث ہے ، دونوں بڑی پارٹیاں NHSمیں اصلاحات لانے کے دعوے اور اعلان کررہی ہیں ،نئے ہسپتال ،نرسزکی تعداد میں اضافہ اور صحت بجٹ بڑھانے کی بات کی جارہی ہے ۔کنزرویٹو پارٹی نے مہم میں امیگریشن جب کہ لیبر پارٹی نے سماجی بہبود پر فوکس کر رکھا ہے ۔یوں تو برطانوی قانون کے مطابق شہریوں کومذہبی آزادی ہے ،تاہم الیکشن مہم میں کہی کہی مذہبی کارڈ کا استعمال دیکھنے کو ملا ۔بورس جانسن کو اسلام مخالف کے طور دیکھا جاتا ہے ،اسلام فوبیا کو لے کر بورس جانسن اور کنزرویٹو پارٹی کو کافی تنقید کا سامنا رہا ،اسی طرح یہودی پیشوا نے لیبر پارٹی پر یہودیوں سے مذہبی منافرت کا الزام لگایا ،اس پر میڈیا میں کافی بحث مباحثہ ہوا،لیبر لیڈرجیرمی کوربن انٹرویو میں یہودی کمیونٹی سے معافی مانگنے سے متعلق سوال کے جواب میں جیرمی کوربن کے انکار پر بھی کافی بحث رہی ۔جیرمی کوربن اور بورس جانسن بالکل مختلف شخصیات ہیں ،جیرمی کوربن کا انداز گفتگوزیادہ شائستہ اور مہذب ہے ،کوربن تمام کمیونٹی کے لیے برابری کے حقوق و سلوک کے
خواہ ہیں ،اس کے برعکس بورس جانسن اکثر متنازع بیان داغتے رہتے ہیں ،جانسن میں قوم پرستی کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے ،اسی لیے وہ ڈونلڈٹرمپ کے زیادہ قریب ہیں گو کہ قوم پرستی کا دور دورہ ہے اسی لیے دنیا کی سپر پاور امریکہ کا صدر ڈونلڈ ٹرپ اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار بھارت کا وزیراعظم نریندر مودی ہے ۔اس کے باوجود برطانیہ کے عوام میں شعور کی سطح زیادہ بلند ہے جس کو مدنظر رکھ کر یہ کہنا مشکل ہے کہ قوم پرست بورس جانسن واضح اکثریت حاصل کر پائیں گے ۔اب تک کی صورتحال کے مطابق کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل کرتی نظر نہیں آرہی ہے ،خیال یہی کیا جارہا ہے کہ برطانیہ میں اتحادی حکومت بنے گی۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا فیصلہ چند دن بعد ہوجائے گا۔