لاکھوں اپنے اپنے گھر کی ہوگئیں

December 12, 2019

ان پانچ دنوں میں لاکھوں اپنے اپنے گھر کی ہو گئیں۔

سب بےتاب تھیں۔ پہلے مصنّفوں کے ذہن سے نکلیں، کاغذ پر جلوہ گر ہوئیں۔ پھر چھاپے خانے سے جِلد اوڑھ کر شرماتی شرماتی ناشر کی الماریوں میں آئیں۔ ایکسپو سینٹر میں منہ دکھائی کے لیے بےچین رہیں۔

کتاب میلہ شروع ہوا۔ تو جانے کہاں کہاں سے دلہنیا والے، لیاقت آباد، ناظم آباد، نیو کراچی ملیر، فیڈرل بی ایریا، حب، لیاری، بلدیہ، بفر زون، گلشن اقبال، گلستانِ جوہر، پی ای سی ایچ ایس سے آتے رہے اور یہ رخصتیاں ہوتی رہیں۔ سب خوش رہے۔ آنکھوں میں نمی آئی نہ مائیں گلے ملیں۔ نہ بھائیوں کے چہرے پر افسردگی ابھری۔

کتابیں دکانوں سے گھروں میں پہنچ گئیں۔ علم و دانش سے کراچی سمیت سندھ کے سب شہر آراستہ ہو گئے ہیں۔ سب سے زیادہ روشنی کراچی کے آنگنوں میں پھیلی ہے۔

کراچی والے پہلے سے زیادہ باخبر، آگاہ اور باعلم ہو گئے ہیں۔ میں نے پانچوں روز حرفِ مطبوعہ کے لیے آنکھوں میں والہانہ چمک دیکھی ہے۔

بچوں بچیوں کو کتابوں کے لمس کے لیے بےقرار پایا ہے۔ کتاب کے لیے ایسی ہی دمکتی پیشانیاں میں نے نوشکی، لورا لائی، کوئٹہ، رحیم یار خان، ملتان، فیصل آباد، حیدر آباد، سکھر اور پشاور میں بھی دیکھی ہیں۔

یقیناً دوسرے شہروں میں بھی میرے ہم وطنوں کی کتاب دوستی کا یہی عالم ہوگا۔ بین الاقوامی میلہ ہر سال اہلِ کراچی کے ذہنوں پہ جمی گرد جھاڑ دیتا ہے۔ چہروں پر مسکراہٹیں لوٹ آتی ہیں۔

کوئی نوجوان ماں اپنے دو ماہ کے بیٹے کو ایک بازو سے اٹھائے دوسرے سے کتابوں کے ورق الٹ رہی ہے۔ کوئی بیٹی اپنی بوڑھی ماں کا ہاتھ پکڑے کسی اسٹال کی طرف گامزن ہے۔

کوئی اسکول ٹیچر یونیفارم میں اپنی شاگردوں کی قطار لیے کسی ہال کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آوازیں بلند ہو رہی ہیں جیسے بہت سی چڑیاں بیک وقت چہچہا رہی ہوں۔ آج یہ بیٹیاں بیٹے جو چوتھی پانچویں جماعت میں زیر تعلیم ہیں، کتابوں سے محبت کی سیڑھی پر قدم رکھ رہے ہیں، الفاظ سے آشنا ہورہے ہیں، علم سے رشتہ استوار کررہے ہیں۔

میرا یقین محکم ہورہا ہے۔ میرے آئندہ دس سے پندرہ برس محفوظ ہورہے ہیں۔ میرا مستقبل روشن ہورہا ہے۔

کون کہتا ہے کہ یہ قوم پیچھے رہ گئی ہے۔ کون یہ تصور کرتا ہے کہ اس قوم میں بصیرت نہیں ہے، آگے بڑھنے کا جذبہ نہیں ہے، حالات کے ادراک کی صلاحیتیں نہیں ہیں۔ کوئی نو عمر کاغذ کے ایک پرزے پر ایک دو کتابوں کے نام لے کر آرہا ہے۔ بہت اشتیاق سے پوچھ رہا ہے کہ یہ کتابیں کہاں ملیں گی۔ کہیں برقع میں سے آواز آرہی ہے۔

مجھے اپنی تحقیق میں یہ کتاب درکار ہے کہیں نہیں مل رہی۔ کہیں شکل و صورت سے انتہا پسند۔ بنیاد پرست لگنے والے سید سبط حسن کی کتاب تلاش کررہے ہیں۔ کراچی والے امڈ امڈ کر آرہے ہیں۔ صدر، کھارا در، میٹھا در، گلشنِ حدید، شاہ فیصل کالونی، محمود آباد، منظور کالونی، اختر کالونی، کورنگی سے ندیاں آ آ کر اس دریا میں مل رہی ہیں لیکن وہ کہاں ہیں جو ان کی نمائندگی کے دعویدار ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ کراچی نے ان کو ووٹ دیا ہے۔

حکمراں پارٹیوں والے تو نظر نہیں آرہے۔ کراچی سے 14سیٹیں لینے والی تحریک انصاف کا تو کوئی دکھائی نہیں دیا۔ سندھ کی حکمراں پارٹی کے وزیراعلیٰ اور مشیر افتتاحی تقریب میں آئے۔ بعد میں کوئی نہیں آیا۔ سید خورشید شاہ ہر میلے میں آتے تھے اب وہ جیل میں کتابیں پڑھ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم والے ہر روز نظر آئے۔

خواجہ اظہار الحسن، خالد مقبول صدیقی، فیصل سبزواری، عامر خان، امین الحق، کتابیں خریدتے بھی رہے۔ جماعت اسلامی والوں کے تو اسٹال بھی تھے۔

دوسرے اسٹالوں پر بھی کتابیں پسند کرتے دیکھے گئے۔ محمد حسین محنتی، معراج الہدیٰ اور دوسرے جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان کے پیروکار تو تھے، رہنما نہیں آئے۔ کراچی میں اتنا بڑا میلہ، لاکھوں شہری آرہے تھے جارہے تھے۔ شہر کے باپ۔ کراچی کے میئر دکھائی نہیں دیے۔

میں بچوں کے لیے اپنی نظمیں ’ایاں ایاں یو یو‘، بچوں بچیوں میں بانٹ رہا ہوں۔ کتاب ملتی ہے۔

بچہ معصومیت سے پوچھتا ہے ’یہ میرے لیے ہے‘۔ اس کے بعد اس کے چہرے پر جو مسرت بکھرتی ہے مجھے برسوں کی ریاضت کا صلہ میسر آجاتا ہے۔

یہ صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی سے بڑا ایوارڈ ہے۔ اتنی بڑی سرگرمی اتنا بڑا اجتماع، شہر، صوبے، ملک کے مختلف حصّوں سے شہریوں کی نقل و حرکت، ہمارے خفیہ ادارے، حکمرانوں کو اس کی رپورٹ تو دیتے ہوں گے۔

کیا ہمارے انٹیلی جنس کے ادارے اس گہما گہمی کو رپورٹ کے قابل سمجھتے ہیں۔

کیا یہ پاکستان کا ‘سافٹ امیج‘ روشن تصور نہیں ہے۔ یہاں مختلف ملکوں کے سفارتی نمائندے آرہے ہیں۔

وہ یقیناً اپنی اپنی حکومتوں کو رپورٹ ارسال کرتے ہوں گے کہ پاکستان کی مڈل کلاس علم و دانش کی کتنی رسیا ہے۔ تاریخ، ادب، شاعری، مذہب، سائنس، جاسوسی، اخلاقیات، سماجیات، جمالیات، نفسیات، نباتات، ٹیکنالوجی، ارضیات، جغرافیہ سے کتنا لگائو رکھتی ہے۔

بیک وقت تین چار نسلیں پسندیدہ کتاب کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہیں۔ اسکولوں سے بڑی بسیں بھری بھری آتی ہیں۔ کالجوں یونیورسٹیوں سے وینیں آرہی ہیں۔

سفارت کار حیران ہوتے ہیں کہ علم کی اتنی بڑی طاقت رکھنے والی قوم سنجیدہ اور علم دوست حکمران کیوں منتخب نہیں کرسکتی۔

اتنے غیر ملکی قرضوں تلے دبی ہوئی کیوں ہے۔ ابھی تک بنیادی سہولتوں سے محروم کیوں ہے۔

ابھی تک جاگیرداری سرداری نظام کیوں ہے۔ نو سالہ بچی سنگسار کیوں کردی جاتی ہے؟

یہ پانچ روزہ میلہ ان سارے سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ انتخابی نظام یر غمال ہوچکا ہے۔

لوگ ووٹ کسی کو دیتے ہیں۔ نکلتے کسی اور کے ڈبے سے ہیں مگر یہ علم جو گھروں میں منتقل ہورہا ہے۔ یہ اس کھوکھلے نظام کو جڑوں سے اکھاڑ دے گا۔ ایک حسین صبح طلوع ہوگی۔ کتاب یقیناً قبائلی سماج سے بھی زیادہ طاقت ور ہے اور ہتھیاروں سے بھی۔

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخر ِ شب

ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے