ان سے کوئی نہیں جیت سکتا

March 01, 2013

آج کل ملک معراج خالد رہ رہ کر یاد آرہے ہےں۔ جب بھی نگراں وزیراعظم کے چنا کی بات ہوتی ہے، سوچتا ہوں کہ معراج خالد جےسا کھراانسان اب کہاں ملے گا۔ اکثر سیاست داں عوام عوام کی رٹ لگاتے ہےں، ان مےں سے زیادہ تر نے ان گھرانوں مےں قدم تک نہےں رکھا جن مےں وہ مخلوق بستی ہے جسے عوام کہا جا تا ہے۔ ملک صاحب پنجاب کے نہایت غریب گھرانے مےں پےدا ہوئے تھے اور جب تک جئے، عوام کے درمیان رہے۔ اصول کے اتنے پکّے تھے کہ پےپلز پارٹی کی بنیادوں سے وابستہ ہونے کے باوجود پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے لڑ گئے اور اس کی سزا پائی مگر پروا کئے بغےر اپنے دروازے ہر خاص و عام کے لئے کھلے رکھے۔ اُس زمانے مےں سیکورٹی نام کے عفریت کی ولادت نہیں ہوئی تھی۔مےں ان کا کہا ہوا اےک فقرہ کبھی نہیں بھول سکتا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد وہ نومبر1996ءمےں نگراں وزیراعظم بنائے گئے۔ پور ے اےک مہینے تک حکومت کے اعلیٰ ترین منصب پر بےٹھنے کے بعد اےک شام وہ رےڈیو پر تقریر کر رہے تھے۔ مجھے قدرے پنجابی لہجے مےں ان کا یہ کہنا آج تک یاد ہے کہ ’ مےں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ پوری قوم ہی کرپٹ ہے‘۔
یہ بات کہنے کے لئے سیاست داں کا ذرا زیادہ ہی سچّا ہونا ضروری ہے۔ اس مےں کوئی شک نہیں کہ بد دیانتی کا پسینہ ماتھے سے بہنا شروع ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ پورے تن بدن کو شرابور کر دےتا ہے۔ پاکستان مےں رشوت ستانی جب زندگی کا معمول بن گئی تو لوگوں نے کچھ سوچے اور کچھ کہے بغےر اسے قبول کر لیا اور طے کرلیا کہ اگر گھی اسی طرح نکلتا ہے تو ٹھیک ہے، عافیت اسی مےں ہے کہ کسی کھکےڑ مےں پڑے بغےر خاموشی سے اپنی انگلی ٹےڑھی کرلو۔ مےں نے بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کو بارہا یہ کہتے سنا کہ جس طرح کسی کی خدمات حاصل کرنے کے لئے اسے معاوضہ ادا کیا جاتا ہے، اسی طرح رشوت دےتے وقت بد دیانتی کی نہیں، معاوضے کی نیت باندھ لےنی چاہئے۔ مجھے یاد ہے، اےک بار مےرے بڑے بھائی کسی زمےن کی منتقلی کے کاغذ پر دستخط کرانے کے ڈی اے کے دفتر گئے جہاں پتہ چلا کہ اوپر چوتھی منزل پر جانا ہوگا اور عمارت کی لفٹ کب کی خراب پڑی ہے۔ بھائی دل کے مریض تھے۔ متعلقہ افسر کو پےغام بھےج کر یہ مجبوری بتائی گئی۔ جواب آیا کہ وہ خود اوپر آئےں تو دستخط کرنے کا یہ نرخ ہے اور افسر کو نیچے آنا پڑا تو اس کا یہ بھا ہے۔ یہ اچھے دنوں کی بات ہے۔ اس کے بعد تو یہ حال ہوا کہ بندہ دے اور بندہ ہی لے۔ یہ لےن دےن نہ صرف بڑھتا گیا بلکہ زندگی کا کچھ اےسا معمول بن گیا جےسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ رشوت ستانی ، دھوکہ دہی اور منافع خوری اتنی بڑھی کہ بہت سے با اختیار لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوتا نظر آنے لگا۔ دنیا جانتی ہے کہ بے دردی سے آنے والا پےسہ بے دردی ہی سے جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ عرصے پہلے ٹےلیویژن کے اےک ٹاک شو مےں اےک تجزیہ کار کو یہ کہتے سنا گیا کہ خدا کے لئے کرپشن نوّے دنوں مےں ختم کرنے کی نہ ٹھانےں کیونکہ اگر یوں ہوا تو کتنے ہی لوگوں کے گھروں مےں فاقے ہو جائےں گے۔اس مےں کیا شک ہے کہ جو لوگ اوپر کی آمدنی کی وجہ سے شاہ خرچیاں کرتے ہےں ان خرچیوں کے فیوض نےچے غریبوں تک یقینا پہنچتے ہےں۔ بڑے لوگوں کے کھانے کمانے کے دن آئے ہےں تو ان کی برکات چھن چھنا کر چھوٹے لوگوں تک ضرور پہنچتی ہےں۔
اب اےک بڑا سوال یہ ہے کہ اتنی بددیانتی اور اس قدر خیانت نے زور کےسے پکڑا۔ جواب آسان ہے، لوگ فتّےن ہوگئے ہےں انہوں نے عیاری سےکھ لی ہے،آنکھوں مےں دھول جھونکنے کے گُر سےکھ لئے ہےں۔ اس مےں انہےں اےک بڑی سہولت یہ ہوگئی ہے کہ چونکہ اطراف مےں موجود سارے ہی لوگ اسی رنگ مےں رنگے ہوئے ہےں چنانچہ احساسِ جرم نہیں رہا ہے اور وہ صدیوں پرانا تصور ساقط ہوگیا ہے کہ دنیا کیا کہے گی اور زمانہ کیا سوچے گا۔ اےک عالم جانتا ہے کہ کسی رشوت خور محکمہ مےں کوئی شامت کا مارا نےک طینت شخص آجائے تو محکمہ والے اسے نکلوانے مےں دو دن بھی نہےں لگاتے۔ مےرے خاندان کے نوجوان اےک اور ہی بات کہتے ہےں۔ ان کا خیال ہے کہ لوگوں کی خصلت مےں عیب ہے، یہ کوئی جینیاتی نقص ہے جو رگوں مےں دوڑتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ عیب نوّے دن تک نہیں، کئی نسلوں تک جاری و ساری رہے گا اور بددیانتی کی مشق جےسے جےسے پختہ ہوتی جائے گی اس عےب کے پہلو سے پھوٹنے والی دوسری شاخےں بھی پھلےں پھولےں گی مثلاً بے حسی اپنے عروج کو پہنچے گی۔ وڈےروں، جاگیر داروں اور گدّی نشینوں کے علاقے مےں بچّوں کے اسکولوں مےں مویشی باندھنے والوں کے ذہن سے یہ خیال اےک لمحے کو بھی نہیں گزرے گا کہ یہ بری بات یا کوئی جرم ہے۔ ہر جرم کرنے والے کو اپنی بے گناہی کا بے حد یقین ہوتا ہے اور خدا جانے کےسے کےسے دلائل دے کر خود کو قائل کر لےتا ہے اور پھر مزے سے ٹانگےں پھےلا کر سوتا ہے۔ مےں نے ٹےلیویژن پر اسکول کی وہ عمارت دےکھی جس مےں گائے بھےنسےں بندھی ہوئی تھےں اور پرانے وقتوں کے بلےک بورڈ پر ابھی تک چنگےز خان کے حملے کی روداد لکھی ہوئی تھی جس سے بے نیاز ڈھور ڈنگرجگالی مےں منہمک تھے اور سوچ رہے تھے کہ آج کل کا چنگےز خان کہیں بہتر ہے جو ہم سے اسکولوں کی عمارتوں پر ہل چلوانے کا کام نہیں لےتا۔اس عمارت سے چند قدم کے فاصلے پر عوام کے لئے بنایا گیا اسپتال بھی تھا جس مےں دو چیزےں ندارد تھےں۔ اوّل دوائےں، دوم ڈاکٹر۔ جس کا خاکروب مریضوں کو انجکشن لگاتا تھا اور جس کا چوکیدار رات کے وقت اُس معالجاتی بستر پر سوتا تھا جس پر حاملہ خواتےن کے بچّے پےدا کرائے جاتے تھے۔ سوچتا ہوں کے اچانک آدھی رات کو ہنگامی حالات مےں کوئی زچہ لائی جاتی ہوگی تو وہی چوکیدار ذرا سا سرک کر اس کے لئے جگہ بنا کر دوبارہ غافل ہو جاتا ہوگا۔
یہ منظر دکھانے والے صحافی نے مقامی باشندوں کو یہ کہہ کر شرمندہ کرنے کی کوشش کی کہ آپ لوگ اندھےر گردی مچانے والے گدّی نشینوں کو ووٹ دے دےتے ہےں، جواب ملا کہ یہ ہماری مجبوری ہے۔ صحافی نے وہاں موجو د مجمع سے پوچھا کہ اگر گدّی نشین تم سے کہے کہ گدھے کو ووٹ دوتو کیا کروگے، سارا مجمع بیک آواز بولا ”ہم گدھے کو ووٹ دےں گے“۔یہ قصہ کسی اےک جھنگ یا کسی اےک شاہ جیونہ کا نہیں۔ یہ قصہ ہر بستی، ہر نگر، ہر علاقے اور ہر سرزمین کا ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ غریبوں کے اعصاب پر بعض لوگوں کا یہ تسلّط مےری آپ کی زندگی مےں تو ٹوٹنے سے رہا۔
اب انتخابات کا موسم آرہا ہے۔ آئے گا یا کسی جھونکے کی طرح گزر جائے گا، یہ کہنا مشکل ہے مگر اس موقع پر مےرے کانوں مےں زندہ باد مردہ باد کا شور نہیں بلکہ چھروں پر دھار بٹھانے کی آوازےں آرہی ہےں۔ جن لوگوں کو اقتدار کا چسکا لگ چکا ہے ، ان کی راہ مےں کےسی ہی مشکلےں کھڑی کی جائےں، کتنی ہی پابندیاں لگائی جائےں، چاہے جےسی جکڑ بندیاں کی جائےں، وہ اتنے عیار ہو چکے ہیں کہ ہر تدبیر کا توڑ ایجاد کرلےں گے، راہ مےں رکاوٹ بننے والا ہر بند توڑ دےں گے (جس کی مشق وہ حالیہ سےلابوں مےں کر چکے ہےں) ہر قانون اور ضابطے کی ایسے دھجیاں اڑائےں گے کہ روک تھام کرنے والوں کا فخر سلامت نہ رہ پائے گا۔ ماضی کی مثالےں گواہ ہےں کہ ان سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ آنے والا وقت ان سے ہار مان لے گا کیونکہ ان کی طینت مےں کہیں کوئی پھےر ہے۔جو بات ڈراتی ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح کے دا پےچ اختیار کرنے والا کوئی شخص نادم نہےں، شرمندہ نہیں، کوئی معافی کا طلب گار نہےں ، کہیں کوئی کسی کے منہ پر اپنا استعفیٰ دے مارنے پر آمادہ نہیں۔ ہر شخص اپنے منصب پر ڈٹا بےٹھا ہے اور اسے یہ خیال بھی نہیں کہ اگر نظام بدلا تو اس کا کچا چٹھا کھلے گا۔ اےسے حالات سے نمٹنے کے لئے لندن کی ہائےڈ پارک کے پہلو سے لگا عالی شان فلےٹ بے صبری سے اس کا منتظر ہے۔اس وقت ہر اےک اپنی بے مثال کامیابی کے پےشگی دعوے کر رہا ہے۔ کسی نے سچ کہا کہ اےسے مےں گنگو تےلی بھی امیدوار ہو تو یہی دعوے کرے گا لےکن وہ غریب جمہوریت کے نعرے نہےں لگائے گا کیونکہ اس نے یہ لفظ تو ہزار بار سنا ہے لےکن اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہےں کہ یہ کس بلا کا نام ہے۔ وہی جمہوریت جس کے بارے مےں ابھی کچھ ہی عرصے پہلے انکشاف ہوا ہے کہ وہ بہترےن انتقام ہے۔