”شیخ الاسلام“ کی روانگی اور تحریک انصاف کے انتخابات

March 02, 2013

جنابِ ”شیخ الاسلام“ اپنے انقلابی جلسوں کی باقی ماندہ سیریزادھوری چھوڑ کر اپنے وطنِ ثانی کینیڈا روانہ ہو گئے ہیں۔ وقتِ رخصت شرارتی اخبار نویسوں کا ”وہی “ سوال اور اس پر جنابِ شیخ کا جواب تھا، میں اتنا بیوقوف بھی نہیںکہ کینیڈا کی شہریت ترک کر دوں۔ وہی بات ، ”شیخ الاسلام“ اتنے بھولے بھی نہیں ۔۔۔ اسلامِ آباد دھرنے سے قبل ماڈل ٹاو ¿ن میں کونسل آف نیشنل افیئرز کے ساتھ جنابِ ”شیخ الاسلام“ کی ملاقات یاد آئی۔ اس سوال پر کہ 14 جنوری کے دھرنے کے بعد آپ نے کوئی پلان ”B “بھی بنایا ہے؟ جواب تھا، میں فوجی نہیں کہ پلان اے، بی اور سی وغیرہ بناو ¿ں۔ میں تو اسی دھرنے کوNow or Never اور Do or Die بنانے کا عزم رکھتا ہوں۔ ”کیا اس کے بعد بھی آپ پاکستان میں رہےں گے؟ “ ۔ ”فی الحال تو ہوں “۔ جنابِ شیخ نے ”فی الحال“ پر قدرے زور دیتے ہوئے کہا تھا۔ اب کینیڈا روانگی کا سبب انہوں نے اپنا طبی معائنہ بتایا ہے جبکہ ایک بزرگ کالم نگار کے خیال میں انہیں اصل ضرورت جسمانی معائنے کی نہیں، نفسیاتی ملاحظے کی ہے۔ اسلام آباد دھرنے کے دوران ان کی تقاریر اور دیگر حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لینے کے بعد وفاقی دارالحکومت کے کچھ سینئر ماہرِ نفسیات نے انہیں خود پسند، احساسِ برتری سے دو چار، نرگسیت کا شکاراور جلد آپے سے باہر ہو جانے والی غیر متوازن شخصیت قرار دیا تھا۔ پاکستان میں الحمدللہ ایک سے ایک اعلیٰ درجے کا ہسپتال اور ایک سے ایک قابل معالج موجود ہے۔ ان میں جسمانی عوارض کے معالج بھی ہیں اور ذہنی ودماغی امراض کے ماہرین بھی۔ لیکن جنابِ شیخ اس نازک موقع پر قوم کی کشتی کو بیچ منجدھار چھوڑ کر طبی معائنے کے لئے کینیڈا تشریف لے گئے ہیں اور وہ بھی دو چار دن کے لئے نہیں پورے دو ہفتے کے لئے اور اگر ان کے کینیڈین معالجین نے انہیں مزید آرام کا مشورہ دے دیا تو پھر اس قوم کی مسیحائی کون کرے گا؟ اپنے الوداعی پیغام میں جنابِ شیخ نے اپنی عوامی تحریک کو اس دوران آئندہ انتخابات کے لئے تیاریوں کی ہدایت بھی کی ہے جن میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ ابھی انہوں نے نہیں کیا لیکن سپریم کورٹ سے اپنی پٹیشن مسترد ہونے کے بعدجہاں وہ جنابِ چیف جسٹس سمیت عدالتِ عظمیٰ کے دیگر ججوں پر گرجے برسے، وہاں فخرالدین جی ابراہیم کی زیرِقیادت الیکشن کمیشن پر عدمِ اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس الیکشن کمیشن کے زیرِاہتمام انتخابات میں حصہ لینے والے، نتائج کا اعلان ہونے کے بعد رو رہے ہوں گے۔ ادھر جنابِ شیخ کو کچھ اور ”عالمی مسائل “بھی درپیش ہوگئے ہیں۔ عالمِ اسلام کی قدیم ترین اسلامی یونیورسٹی، جامعہ الازہر (قاہرہ) کے مذہبی سکالرز نے جنابِ طاہرالقادری کے ”شیخ الاسلام“ کے ٹائٹل پر احتجاج کرتے ہوئے جامعہ کے گرینڈ امام شیخ الطیب کے نام اپنی درخواست میں استفسار کیا ہے کہ طاہرالقادری کو یہ اعزاز کہاں سے اور کیسے حاصل ہوا؟ ان کا مطالبہ ہے کہ پاکستانی / کینیڈین ”شیخ الاسلام“ کو یہ ٹائٹل استعمال کرنے سے روکا جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمیں تو اس میں عجم کے ساتھ عرب کی روایتی عصبیت نظر آئی۔ ہمارے ”شیخ الاسلام“ نے یہ دعویٰ کب کیا کہ انہیں یہ خطاب جامعہ الازہر نے دیا ہے۔ حفیظ جالندھری نے کہا تھا ۔
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
ہمارے طاہر القادری بھی اپنے زور سے ”شیخ الاسلام“ بن گئے ہیں تو کسی کو کیا تکلیف؟ دو ”سیّدوں“کے درمیان اصل سیّد ہونے کی بحث ہورہی تھی کہ ایک سیانے نے کہا، ان میں سے ایک کا تو پتا نہیںالبتہ دوسرے کے سیّد ہونے کی گواہی میں دے سکتا ہوں کہ یہ میرے سامنے سیّد بنا تھا۔ ہمارے ممدوح کو ”شیخ الاسلام“ بنے زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور ویسے بھی انہوں نے یہ رتبہ بلند مغرب میں حاصل کیا البتہ علامہ سے پروفیسر اور پھر پروفیسر سے ڈاکٹر بننے کے مدارج انہوں نے اپنے قیامِ لاہور کے دوران ہمارے سامنے ہی طے کر لئے تھے۔ اگرچہ بعض حاسدین ان کے پی، ایچ، ڈی مقالے پر ڈاکٹر برہان الدین فاروقی مرحوم کے پی،ایچ، ڈی تھیسس کا ذکر کرنے لگتے۔ اس موقعے پر ہمیں اپنے ڈاکٹر بابر اعوان بھی یاد آگئے۔ موصوف امریکہ کی مونٹی سیلو یونیورسٹی کے سند یافتہ ڈاکٹر ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ پاکستان کا ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹریٹ کی اس ڈگر ی کو تسلیم نہیں کرتا۔ خود امریکہ میں بھی اس یونیورسٹی کو ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں جاری کرنے پر جرمانہ ہو چکا ہے۔ ادھر برطانیہ میں پاکستانی قانون دانوں کی تنظیم کے چیئرمین بیرسٹر امجد ملک نے وہاں کے چیریٹی کمیشن کے نام درخواست میں شکایت کی ہے کہ طاہرالقادری صاحب نے برطانوی حکومت سے امداد لینے والے اپنے خیراتی اداروں منہاج القران ویلفیئر انٹرنیشنل اور منہاج القران انٹرنیشنل کے فنڈز میں سے 69 ہزار ڈالر (تقریباً 69 لاکھ پاکستانی روپے) کی بلٹ پروف لینڈ کروزر گاڑی خریدی ہے جو امانت میں خیانت ہے۔
ایک تازہ SMS َ۔۔۔” مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو۔۔۔ آپ زیادہ خوش نہ ہوں مجھے تو اچانک ”شیخ الاسلام“ کا کنٹینر دھرنے والا ڈائیلاگ یاد آگیا“ ۔ ہماری طرف سے بھی اہلِ لاہور کو مبارک ہو کہ تحریکِ انصاف کے جماعتی انتخابات میں اب ہمارے شہر میں تبدیلی کی علامت جنابِ علیم خاں اور رشید بھٹی جیسی شخصیات قرار پائی ہیں ۔ تحریکِ انصاف نے اپنے داخلی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی طے کر لیا، لیکن کیا یہ انتخابی عمل کپتان اور اس کی جماعت کے لئے نیک نامی کا باعث بنا؟ اکثر مقامات پر لڑائی مارکٹائی، دھن، دھونس اور دھاندلی کی شکایات سامنے آئیں۔ بعض جگہوں پر امیدوار بھی نشانہ بنے۔ کپتان کے ناقدین ان کے سوشل میڈیا کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ ان کے خلاف جو زبان استعمال کی جاتی ہے اس کا کچھ بیان جناب عطاالحق قاسمی اپنے کالموں میں کرچکے ہیں۔ خود شیریں مزاری اور ان کی صاحبزادی کے متعلق جو الفاظ استعمال کئے گئے اس پر لاحول ولا قوة کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے؟ ہار جیت الیکشن کا لازمی حصہ ہے لیکن یہاں ہارنے والوں کا دکھ یہ ہے کہ وہ صاف اور شفاف انتخابی عمل میں شکست سے دو چار نہیں ہوئے۔ زور آوروں نے کہیں پیسے اور کہیں دھونس اور دھاندلی کے ذریعے انتخابی عمل کو یرغمال بنا لیا۔ اکثر مقامات پر کپتان کے دیرینہ وفادار ہار گئے اور 30 اکتوبر کے سونامی کے بعد پارٹی میں در آنے والے نودولتیے جیت گئے۔ بات لمبی ہو جائے گی۔ خبیرپختونخواہ میں تحریکِ انصاف کے رہنما (انٹیلی جینس بیورو کے سابق ڈائریکٹر جنرل ) مسعود خٹک کا ٹویٹ میسج پڑھ لیجئے۔ (ترجمہ: اگر نئی نسل جسے PTI کی ریڑھ کی ہڈی ہونے کا دعویٰ ہے ، پاکستان میں واقعی ہی تبدیلی چاہتے ہیں تو انہیں PTI کی قیادت میں خوشامدی ٹولے سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ کاش آپ جان سکتے کہ ان انتخابات میں ہر سطح پر کس طرح کی ساز باز، گٹھ جوڑ اور ووٹوں کی خریدو فروخت ہوئی۔)