کچھ کریں ورنہ

March 03, 2013

جمعیت علمائے اسلام (ف) کی اے پی سی دو حوالوں سے مختلف تھی۔ ایک تو اس میں قبائلی عوام کا گرینڈ جرگہ شریک بلکہ میزبان تھا۔ دوسرا اس میں ماضی کے کانفرنسوں کے برعکس ایک عملی قدم بھی تجویز کیا گیالیکن یہ بات واضح ہے کہ اگر یہ عملی قدم نہ اٹھایا گیا اور جو مبہم روڈمیپ دیا گیا ہے‘اسے واضح کرکے سرعت کے ساتھ اس پر سفر شروع نہیں کیا گیا تو یہ بھی ماضی کے آل پارٹیز کانفرنسوں کی طرح محض ایک کانفرنس ہی ثابت ہوگی۔ اس آل پارٹیز کانفرنس میں مجھ سمیت نصف درجن سینئر صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم صرف سننے کے لئے مدعو ہیں لیکن کانفرنس کے آغاز سے کچھ دیر قبل مولانا فضل الرحمن صاحب نے حکم صادر فرمایا کہ میں نے سول سوسائٹی‘ میڈیا اور قبائلیوں کے نمائندے کے طور پر تقریر بھی کرنی ہے۔ ان کے اصرار پر آمادگی اس خیال سے ظاہر کی کہ مجھے کہیں آخر میں تقریر کرنی ہوگی اور دیگر مقررین کو سنتے ہوئے ذہن میں بات کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی ترتیب آہی جائے گی لیکن روایت کے برعکس مجھے اسٹیج سیکرٹری مولانا عطاءالرحمن نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان‘ میاں نوازشریف اور مخدوم امین فہیم کے خطابات کے بعد ڈائس پر بلالیا۔ یہاں جو منتشر قسم کی گزارشات رکھ دیں ‘ان کا جو خلاصہ ذہن میں آرہا ہے وہ قارئین کی نذ ر کررہا ہوں لیکن تقریر چونکہ زبانی تھی اور نوٹس بھی نہیں لئے تھے‘ اس لئے معمولی کمی بیشی کا امکان ہے تاہم مجموعی طور پر روح بھی یہی تھی اور دلائل بھی یہی تھے۔ شمالی وزیرستان میں بہیمانہ طور پر قتل کئے جانے والے میرے دوست اور میران شاہ پریس کلب کے صدر ملک ممتاز کے ایصال ثواب کے لئے مولانا فضل الرحمن سے فاتحہ خوانی کرانے کے بعد میں نے عرض کیا کہ:
محترم سیاسی اور مذہبی قائدین:
قبائلی علاقے اور اس سے متصل پختون پٹی گزشتہ تین دہائیوں سے جہنم کا منظر پیش کررہی ہے ۔ عوام عسکری طاقتوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے ہیں ۔ ہزاروں لوگ قتل اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ۔ معیشت ‘ثقافت ‘ سیاست‘ معاشرت سب تلپٹ ہوئے ۔ یہاں رہنے والے کل بھی محب وطن تھے اور آج بھی محب وطن ہیں ۔ کل بھی آپ لوگوں کو لیڈر مانتے تھے اور آج بھی مانتے ہیں لیکن وہ دکھی بھی ہیں اور انہیں آپ لوگوں سے شکایت بھی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی سیاست میں ان کے مسائل کے لئے کوئی جگہ نہیں ۔آپ لوگوں نے پچھلے سالوں کے دوران ان پالیسیوں کو بدلنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جو کنفیوژن اور تضادات پر مبنی ہیں اور جن کے نتیجے میں یہ خطہ جہنم بن گیا ہے ۔حکمرانوں سے انہیں شکایت ہے کہ وہ صرف اس بات سے جان چھڑانا چاہتے ہیں کہ انہیں سب کچھ وراثت میں ملا ہے اور حقیقی معاملات اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کی لوٹ کھسوٹ کے معاملے میں تو اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ نہیں بنتی لیکن جب ان پالیسیوں کی بات آتی ہے تو پھر آپ لوگ اس کی آڑ لے لیتے ہیں ۔ زرداری صاحب اپنے ایک سفیر کی تقرری کے لئے تو اس اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے لیتے ہیں اور اپنے من پسند شخص کو وزیرداخلہ بنانے کے لئے اس کے اعتراضات کو درخوراعتنا نہیں سمجھتے لیکن جب ان پالیسیوں کی بات آتی ہے تو پھر وہ اپنی معذوری ظاہر کرتے ہیں ۔ دہشت کے شکار ان پختونوں کو صرف حکومت سے نہیں اپوزیشن سے بھی شکایت ہے ۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ آپ نے تو عدلیہ کی بحالی کے لئے ہر ممکن کوشش کی لیکن اس عدلیہ کا دائرہ اثر قبائلی علاقوں تک محیط ہی نہیں۔ کیا آپ لوگوں نے ان علاقوں کو انصاف کے دائرے میں لانے کے لئے بھی کبھی کوئی دھرنا دیا؟ میاں صاحب میمو کے مسئلے پر تو سپریم کورٹ گئے لیکن آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ہم سالوں سے ہزاروں کی تعداد میں مررہے ہیں تو آپ کبھی اس مسئلے پر سپریم کورٹ کیوں نہیں گئے؟ پختونوں کو مذہبی جماعتوں سے بھی شکایت ہے کہ وہ ان کے مسئلے کے بارے میں سچ بولنے کے بجائے اس کے ذریعے سیاست چمکارہی ہیں ۔ میں یہاں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح پاکستانی طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش آخری موقع ہے اور اس کے ذریعے وہ اتمام حجت کرنا چاہتے ہیں ‘ اسی طرح قبائلی عوام کا یہ جرگہ آج اس کنونشن سینٹر میں پاکستانی سیاستدانوں پر اتمام حجت کرنے کے لئے یہاں آیا ہوا ہے۔ یہ جرگہ آپ کے پاس اپنی فریاد لے کر آیا ہے اور اگر آج بھی آپ لوگوں نے ان کی جھولی میں کچھ نہ ڈالا تو وہ پھر کبھی آپ سے رجوع نہیں کریں گے اور پھر انہوں نے جو بھی کیا‘ آپ کے پاس شکایت کا جواز نہیں ہوگا۔
عالمی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے قبائلی علاقوں اور پختون بیلٹ کو عرصہ دراز سے لیبارٹری بنا رکھا ہے۔ جنرل ضیاءنے سوویت یونین کو نتھ ڈالنے کا فیصلہ کیا تو اس کے لئے ان علاقوں کو لیبارٹری بنا دیا جس میں مجاہدین پیدا ہوتے رہے پھر جنرل پرویز مشرف نے دوغلے پن کے ذریعے امریکہ اور ہندوستان کو نتھ ڈالنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں اس لیبارٹری میں ایک اور طرح عسکریت پسند پیدا ہونے لگے لیکن اب وہ علاقے ایک اور طرح کی لیبارٹری بن گئے ۔ یہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان بیٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے پاکستان کو بچانے کے لئے ایٹم بم بنا دیا لیکن آج ان علاقوں میں سیکڑوں ایٹم بم بن رہے ہیں ۔ طالبان اپنے خودکش بمباروں کو ایٹم بم کہتے ہیں اور جہاں وہ تیار ہوتے ہیں اسے ایٹمی بھٹی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اب ان کے فرانچائزز کا سلسلہ لاہور ‘ کراچی اور اسلام آباد تک بھی دراز ہوگیا ہے ۔ ہمارے پالیسی ساز خواب دیکھ رہے ہیں کہ 2014ءکے بعد قبائلی علاقوں میں امن آجائے گا لیکن میں متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ جس طریقے سے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں ‘ اگر اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو مستقبل قریب میں لاہور‘ کراچی اور اسلام آبادکو بھی وزیرستان بننے سے کوئی نہیں بچاسکے گا ۔ میری اطلاع کے مطابق اگلے انتخابات میں کارروائیوں کے لئے سیکڑوں کی تعداد میں نئے خودکش حملہ آوروں کی پاسنگ آوٹ ہوچکی ہے۔ وزیرداخلہ بننے کے بعد رحمن ملک نے شاید پہلا سچ بولا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگلے انتخابات نہایت خونی ہوں گے۔ پختونوں نے جتنا تباہ ہونا تھا ‘ تباہ ہوگئے اب اگر زرداری صاحب‘ میاں صاحب اور دیگر لیڈران اپنے بچوں کی فکر کرنا چاہتے ہیں تو آگے بڑھیں اور اس مسئلے کو ترجیح دے کر حل نکالیں ۔ فوج بار بار اعلان کرتی ہے کہ فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے، آپ لوگ ہمت کرکے کوئی پالیسی تو دے دیں پھر اگر فوج نے بات نہ مانی تو قوم جان جائے گی کہ سیاسی قیادت قصور وار نہیں۔ آپ لوگ پارلیمینٹ کی قراردادوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن اس میں آپ لوگ صرف یہ تجویز کرتے ہیں کہ” کیا ہونا چاہئے“ لیکن ”کیسے ہونا چاہئے“ کا جواب سیاسی قیادت نے کبھی نہیں دیا۔ آج اس ہال میں پوری سیاسی قیادت بیٹھی ہوئی ہے ۔ آپ لوگ ہمت کرکے حکومت اور عسکریت پسندوں سے جنگ بندی کا مطالبہ کرلیں اور ساتھ یہ واضح کردیں کہ جس بھی فریق نے بات نہ مانی ‘ یہ پوری قیادت دوسرے فریق کے ساتھ کھڑی ہوگی پھر دیکھتے ہیں کونسا فریق پوری پاکستانی سیاسی قیادت سے ٹکر لینے کی ہمت کرتا ہے۔ آپ لوگ ہمت تو کرلیں۔ میاں صاحب !آپ منور حسن اور مولانا فضل الرحمن کو ساتھ لے لیں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی آپ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہیں،آپ سیدھا وزیرستان چلے جائیں قبائل کا یہ ستّر رکنی جرگہ اگر آپ لوگوں کے ساتھ ہوگا تو کوئی آپ پر گولی نہیں چلا سکے گا ۔ طالبان کی بات سن کر پھر حکومت کے ساتھ بیٹھ جائیے۔ آپ اگر قومی قائد ہیں تو پھر قیادت کرکے راستہ نکال لیجئے ۔ بظاہر پاکستانی طالبان کے مطالبات ناقابل عمل ہیں لیکن افغان طالبان کے مطالبات سے زیادہ ناقابل عمل ہر گز نہیں ۔ جو کچھ پاکستانی طالبان کررہے ہیں‘ افغان طالبان نے اس سے بڑھ کر کیا ہے ۔ پاکستانی طالبان تو آئین میں ترمیم چاہتے ہیں لیکن افغان طالبان سرے سے افغانستان کے آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اگر افغان طالبان سے بات ہوسکتی ہے اور پورا پاکستان ان سے بات کرنے کا وکیل بھی ہے تو پھر پاکستانی طالبان سے کیوں نہیں ہوسکتی؟“