ایک دن خضدار میں

March 04, 2013

موجودہ قومی اسمبلی کے ارکان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ پاکستانی عوام کے منتخب ایوان نے پانچ سال مکمل کر لئے ہیں اور یہ جمہوریت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی پچھلے دنوں جمہوری حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے پر اطمینان ظاہر کیا اور کہا کہ آئندہ انتخابات اپنے وقت پر ہونگے۔ آرمی چیف نے یہ خواہش بھی ظاہر کی تھی کہ بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں ایک ہی دن انتخابات منعقد ہونے چاہئیں، ہر محب وطن پاکستانی یہ چاہتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے لیکن میں انتہائی دکھ اور افسوس کےساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بلوچستان کے عوام سے معافی مانگی اور آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد بلوچستان میں جتنے سیاسی کارکن لاپتہ ہوئے اور جتنی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر گرائی گئیں وہ فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے مقابلے پر کئی گنا زیادہ تھیں، میں نے خضدار میں صرف ایک دن اور ایک رات گزاری، اتنی گھٹن، اتنا خوف اور اتنی دہشت مجھے فلسطین، لبنان، عراق اور افغانستان میں بھی محسوس نہ ہوئی، مجھے بتایا گیا تھا کہ خضدار پریس کلب کھل گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ خضدار پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عبدالحق بلوچ کے قتل کے بعد اسی پریس کلب کے صدر ندیم گرگناڑی کے دو جوان بیٹوں کو قتل کیا گیا۔ ہم اسلام آباد میں بیٹھ کر اپنے ساتھیوں کے قتل پر مذمت کرتے رہتے ہیں خضدار جا کر مظلوم ساتھیوں کے خاندانوں کے ساتھ تعزیت کرنی چاہئے۔ لمبا سفر طے کرکے خضدار پہنچا تو پریس کلب بند تھا۔ بڑی مشکل سے عبدالحق بلوچ کے ایک بھائی کو ڈھونڈا اور ان سے تعزیت کی، جس سے بھی ملا اس نے ایک ہی سوال پوچھا کہ آپ یہاں کیسے پہنچ گئے؟ آپ واپس کیسے جائینگے؟ آپ نے اتنا خطرہ کیوں مول لیا؟ مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ لوگ خضدار کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں فوج کا ایک بھی سپاہی کہیں کسی آپریشن میں شامل نہیں۔ خضدار جا کر معلوم ہوا کہ فوج کے خفیہ ادارے یہاںکھلم کھلا آپریشن کرتے ہیں۔ کبھی ایف سی کو استعمال کرتے ہیں اور کبھی کسی پرائیویٹ لشکر کو استعمال کرتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کو اسلام اور پاکستان کے نام پر سیاسی جماعتوں کےخلاف سازشوں کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ یہ باتیں سنی سنائی نہیں ہیں۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے خضدار میں دیکھ لیا کہ ہمارے ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کی کیا حیثیت ہے؟
میں نے خضدار سے قومی اسمبلی کے رکن محمد عثمان ایڈووکیٹ سے درخواست کی تھی کہ مجھے مقامی سیاستدانوں سے ملوا دیں۔ میں جمعیت علماءاسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، انجمن تاجران، بار ایسوسی ایشن اور کچھ سماجی تنظیموں کے نمائندوں سے ملنے سرکٹ ہاﺅس کی طرف روانہ ہوا تو ایک چیک پوسٹ پر ایف سی کے جوان نے پوچھا کہ کون ہو؟ محمد عثمان نے کہا کہ خضدار کا ایم این اے ہوں، ایف سی والے نے کہا کہ سروس کارڈ دکھاﺅ۔ ایم این اے نے کہا کہ ہمارا سروس کارڈ نہیں ہوتا، ایف سی والے نے تحکمانہ انداز میں کہا بحث مت کرو اور اپنی شناخت بتاﺅ۔ ایم این اے صاحب نے اسلام آباد کلب کا کارڈ دکھا کر جان چھڑائی، میں نے عثمان صاحب سے کہا کہ آپ نے قومی اسمبلی کا کارڈ کیوں نہ دکھایا؟ موصوف نے بڑی شرمساری سے کہا کہ میں نے کم از کم قومی اسمبلی کے کارڈ کی توہین تو نہیں ہونے دی۔ ایف سی کی چیک پوسٹوں سے گزر کر ہم سرکٹ ہاﺅس پہنچے، ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ کمشنر خضدار نے مجھے اطلاع دی کہ آپ کے خلاف روڈ بلاک ہو گئی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کہاں روڈ بلاک ہوئی ہے؟ کہنے لگے کہ سرکٹ ہاﺅس کے باہر، میں حیرانگی کے عالمی مبں باہر آیا تو چھ باریش نوجوانوں اور آٹھ خواتین نے روڈ بلاک کی ہوئی تھی، میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ ایک نوجوان نے بڑے غصے اور حقارت سے کہا کہ ہم پاکستان کے سپاہی ہیں، پھر بی ایل اے کے خلاف نعرے بازی شروع ہو گئی، میں نے ان نوجوانوں سے کہا کہ میں بی ایل اے کو تو نہیں مل رہا، پاکستان کے آئین کو ماننے والی جماعتوں کے نمائندوں کو مل رہا ہوں تو ان نوجوانوں نے اختر جان مینگل کو گالیاں دینی شروع کیں۔ میں نے دائیں بائیں جائزہ لیا تو پولیس بے بس نظر آئی، سامنے ایف سی ہیڈ کوارٹر تھا اور ایف سی والے مسکرا مسکرا کر اپنے مجاہدین کی کارکردگی پر خوش ہو رہے تھے۔ بظاہر یہ باریش نوجوان اور برقع پوش خواتین اپنے آپ کو کچھ شہید پولیس والوں کے لواحقین قرار دے رہے تھے لیکن مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان نوجوانوں کا تعلق ایک کالعدم تنظیم سے ہے اور اس تنظیم کو آئی ایس آئی کنٹرول کرتی ہے۔ میں نے ڈی آئی جی فصیح الدین سے کہا کہ آئی ایس آئی کے مقامی افسران کو پیغام دو کہ خضدار کے سیاسی نمائندوں سے ملنا کوئی جرم نہیں اپنے آدمیوں کو یہاں سے ہٹاﺅ۔ ڈی آئی جی نے ایک ایس ایچ او سے کہا کہ روڈ کلیئر کراﺅ لیکن کالعدم تنظیم کے باریش نوجوانوں نے ڈی آئی جی کے حکم کو ہنسی میں اڑا دیا۔ایس ایچ او بار بار ایف سی والوں کی طرف دیکھتا رہا لیکن وہ صرف مسکراتے رہے۔ میں نے پولیس والوں کو مزید امتحان میں نہیں ڈالا اور موقع سے ہٹ گیا۔ ریاستی اداروں کی طرف سے ایک کالعدم تنظیم کی سرپرستی کے باعث خضدار پولیس مکمل طور پر بے بس اور لاچار تھی۔ ڈی آئی جی فصیح الدین لکھنے پڑھنے والے آدمی ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ریاستی اداروں کی پھیلائی ہوئی اس گندگی کو چھوڑو، میں نے سنا ہے کہ خضدار میںکسی صحابیؓ رسول کا مزار ہے مجھے اس مزار پر لے چلو، فصیح الدین مجھے خضدار شہر کے عقب میں واقع حضرت سنان بن سلمہ محبقؓ کے مزار پر لے گئے، بعض مو ¿رخین کا دعویٰ ہے کہ حضرت سنانؓ کا مزار پشاور میں ہے جو چغرمٹی کے قریب اصحاب بابا کے مزار کے نام سے مشہور ہے، فصیح الدین اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں اور مولانا ابو طفر ندوی کی ”تاریخ سندھ“ کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ صحابیؓ رسول حضرت سنان نے خاران اور خضدار کو فتح کیا، فصیح الدین کی تحقیق کے مطابق حضرت سنانؓ مکران کی طرف سے خضدار آئے اور یہ واقعہ محمد بن قاسم سے پہلے کا ہے اور اسلئے پروفیسر ڈاکٹر رضوان علی ندوی کا خیال ہے کہ باب الاسلام سندھ نہیں بلکہ بلوچستان ہے۔ مشہور مورخ بلاذری کا کہنا ہے کہ حضرت سنانؓ کی وفات خضدار میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر عبدالرحمن براہوی نے اپنی کتاب ”بلوچستان میں صحابہ کرامؓ“ میں حضرت سنانؓ کی پرانی قبر کی تصویر بھی شائع کی ہے جو اب پختہ کر دی گئی ہے۔ اگر فصیح الدین کی تحقیق درست ہے تو پھر ہمیں اپنی نصابی کتب پر نظرثانی کرنی چاہئے جن میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ کو باب الاسلام بنایا، حضرت سنانؓ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد واپس خضدار شہر آ گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ سیاہ شیشوں والی ایک ٹویوٹا کار میں مسلح افراد میرا پیچھا کر رہے ہیں۔ میں نے یہ اطلاع دینے والے سے کہا کہ ایف سی والوں کی نظروں کے سامنے اس کار میں موجود افراد مجھ پر حملہ کر دیں تو اس کی ذمہ داری بھی بی ایل اے پر ڈال دو گے؟ یہ سن کر اطلاع دینے والے نے کہا کہ ہم سول انتظامیہ کے لوگ خفیہ اداروں اور ریاست مخالف عسکریت پسندوں کی لڑائی میں سینڈوچ بنے ہوئے ہیں۔ عدالتوں میں جواب طلبی ہماری ہوتی ہے بے عزتی بھی ہماری ہوتی ہے آج تک کسی وردی والے کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی آپ مہربانی کریں اور یہاں سے چلے جائیں۔ خضدار کی سول انتظامیہ میری وجہ سے خاصی پریشان تھی انہیں خدشہ تھا کہ کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں جواب طلبی کمشنر یا ڈی سی کی ہو گی، ایف سی یا آئی ایس آئی سے کوئی نہیں پوچھے گا لہٰذا میں گاڑیاں بدلتا ہوا خضدار سے نکل گیا۔ گزارش یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں دھاندلی کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ یہ دھاندلی بلوچستان میں ہو گی جہاں خفیہ ادارے اپنی پالتو کالعدم تنظیموں کے ذریعہ اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں کے ساتھ مارا ماری کریں گے اور ذمہ داری بی ایل اے قبول کیا کرے گی۔