’لائیڈ بیراج میوزیم‘ تعمیرکے آغاز سے تکمیل تک کی تاریخ محفوظ ہے

December 31, 2019

لائیڈ یا سکھر بیراج کا نام سنتے ہی ذہن کے دریچوں میں ایشیاء کے سب سے بڑے نہری نظام کا خاکہ ابھرتا ہے جس سے نکلنے والی سات نہریں سندھ کی زراعت کی اساس سمجھی جاتی ہے۔ٹیکنالوجی کے دور میں دنیا روز نئےنئے عجوبے دیکھتی رہتی ہے مگر سکھر بیراج فن تعمیر کا ایک ایسا شاہکار ہے جو کہ طویل عرصے سے انسانی کاریگری و مہارت کا جیتا جاگتا ثبوت پیش کر رہا ہے۔

سکھر بیراج 1923ء سے 1932ء کے درمیان برطانوی دور حکومت میں تعمیر ہوا اور اس کا نام لائیڈ بیراج (Lloyd Barrage) تھا۔اس دور میں انگلستان میں کنگ جارج پنجم کی حکمرانی تھی اور ہندوستان تاج برطانیہ کے زیرنگین تھا۔ بمبئی کے گورنر جارج لائیڈ نے 24 اکتوبر 1923ء کو اس بیراج کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اس بیراج کی تعمیر 9 برس کے قلیل عرصے میں تکمیل کو پہنچی۔ 13 جنوری 1932ء کو اس وقت کے وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ ولنگٹن نے اس انقلابی زرعی منصوبے کا افتتاح کیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ آبپاشی کا پہلا مربوط نظام چین کے شہر سیچوان میں قائم ہوا جسے’’دیوجانگانا اریگیشن نظام‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ 256 سال قبلِ مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اسی طرح شام کا کوانٹینہ بیراج کئی صدی قبل مسیح میں تعمیر ہوا تھا۔

اسپین کے پروسپیرنا اور کورناویلا ڈیم پہلی صدی کی تعمیرات ہیں، اسی طرح جاپان اور ہندوستان میں بھی صدیوں پرانے ڈیم آج تک نہ صرف موجود ہیں بلکہ آج بھی کارآمد ہیں۔پاکستان میں سب سے بڑا آبپاشی نظام سکھر بیراج کو کہا جاتا ہے۔66 دروازوں والا یہ بیراج اپنی عمر کے 87 برس پورے کر چکا ہے، یعنی بیراج اپنی گولڈن جوبلی آج سے 12 برس قبل منا چکا ہے، یہ بیراج اب اپنی عمر کی پہلی صدی کے سفرکی جانب رواں دواں ہے۔

موجودہ تحریر میں سکھر بیراج کا ذکر ہمارا مقصد نہیں بلکہ اس کی تاریخ، اس کی بنیاد کی ایک اینٹ رکھے جانے سے لے کرتیاری تک کے تمام مراحل کا ریکارڈ محفوظ رکھنے والے ’’سکھر بیراج میوزیم ‘‘کے حوالے سے معلومات فراہم کرنا ہے۔ سکھر بیراج کے دائیں طرف بیراج کا کنٹرول روم اور محکمہ آب پاشی کے افسران کے دفاتر ہیں جبکہ بائیں جانب اسی طرح کے بنے ہوئے خوبصورت کمروں میں سکھر بیراج کا میوزیم اور لائبریری موجود ہیں۔ سکھر بیراج کی طرح اس کا میوزیم بھی ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے، جس میں سکھر بیراج کی مکمل تاریخ محفوظ کی گئی ہے۔

میوزیم میں بیراج کے حوالے سے تمام ماڈلز رکھے گئے ہیں۔ اس میں ہر اس افسر کا تفصیلی بائیو ڈیٹا موجود ہے جس نے شروع سے لے کر اختتام تک اپنے ذمے موجود فرائض بخوبی ادا کیے۔ سکھر بیراج کی تعمیر سے لے کرتکمیل تک جن جن افسران نے جو جو کردار ادا کیا، ان سب کے نام، عہدے اور تصاویر تک سکھر بیراج کے میوزیم میں موجود ہیں۔

سکھر بیراج کی بنیاد رکھنے سے لے کراختتام تک کے تمام مراحل کی درجہ بندی کے حساب سے تصاویر آویزاں ہیں۔ سکھر بیراج کی تعمیر میں جو مٹیریل استعمال ہوا بالخصوص لائم اسٹون جسے چونے کا پتھر کہتے ہیں اس کے بھی تمام نمونے میوزیم میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سیمنٹ، بجری اور دیگرتعمیراتی اجزاء کے سمپل بھی حفاظت سے رکھے گئےہیں۔

سکھر بیراج کے میوزیم میں ایک لائبریری ہے جس میں بیراج کی تعمیرات کے حوالے سے جن جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا وہ تمام کی تمام موجود ہیں، جن میں خصوصیت کے ساتھ انجینئرنگ، مکینیکل، الیکٹریکل، سول انجینئرنگ کی تمام کتابیں موجود ہیں۔ایک اندازے کے مطابق انجینئرنگ کی تقریباً 20ہزار سے زائد کتابیں اس لائبریری میں موجود ہیں، جنہیں کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کام جاری ہے۔

سکھر بیراج کی تعمیر پر مجموعی طور پر خرچ ہونے والی رقم کا ریکارڈ بھی محفوظ ہے جبکہ وہ رقم وقتاً فوقتاً کتنے مراحل میں کس طرح خرچ کی گئی اس کی بھی ریکارڈ معلومات کی صورت میں بحفاظت رکھا گیاہے۔ سکھر بیراج کا مکمل ماڈل، بیراج سے نکلنے والی نہریں، اس دور میں استعمال ہونے والے ٹائپ رائیٹر، لیتھ مشین، پرنٹنگ مشین، کرینیں، پینٹون اور استعمال ہونے والا پتھر، چونا، بجری، ریت، بیراج کے دروازوں کے ماڈل، ان کو چلانے کا نظام، ان کا وزن الغرض سکھر بیراج کے حوالے سے معمولی سے معمولی بات بھی ریکارڈ کا حصہ بناکر اسے سکھر میوزیم میں محفوظ کرلیا گیا ہے۔

1982ء میں جب سکھر بیراج کی 50سالہ گولڈن جوبلی ہوئی تھی تو اس وقت سکھر بیراج کا ایک اسپیشل دھاتی ماڈل تیار کر کے اس پر سونے کا پانی چڑھایا گیا تھا، اسے بھی وہاں رکھا گیاہے۔ سکھر بیراج کے معماروں کی فیملیز کو گولڈن جوبلی کے موقع پر شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ مذکورہ تقریب کی تمام تصاویر بھی میوزیم میں موجود ہیں۔

انچارج کنٹرول روم سکھر بیراج عبدالعزیز سومرو نے بتایا کہ سکھر بیراج کا میوزیم دیکھنے کے لئے ملکی اور غیر ملکی سیاح، بالخصوص سول انجینئرنگ سے تعلق رکھنے والے ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طالبعلموں کی ایک بڑی تعداد یہاں کا دورہ کرتی ہے، جہاں انہیں بیراج کی تیاری کے حوالے سے مکمل بریفنگ دی جاتی ہے۔ سکھر بیراج کے دائیں راستے سے چڑھ کر اوپر ٹرین کے ذریعے بیراج کا معائنہ کرنے کے بعد وزیٹرز کو بیراج کے بائیں کنارے میوزیم میںلے جایا جاتا ہے جہاں انہیں بیراج کی مکمل تاریخ، تعمیر سمیت دیگر اہم خصوصیات کے حوالے سے بریفنگ دی جاتی ہے۔

میوزیم آنے والے سیاحوں، طلبہ و طالبات اور انجینئرز یہاں موجود ماڈلز میں انتہائی دلچسپی رکھتے ہیں اور محفوظ کیے جانے والے مٹیریلز کا بغور جائزہ لیتے ہیں ۔بیشتر افراد محفوظ کیے جانے والے ماڈلز کو دیکھ کر حیرانی کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اس دور میں کس طرح یہ تمام کام مکمل کیا گیا ہوگا۔

جس طرح سکھر بیراج کے میوزیم میں بیراج کی ایک ایک انچ، ایک ایک پتھر سے لے کر بڑے بڑے گیٹ کی تعمیر تک جو معلومات محفوظ کرکے ریکارڈ کا حصہ بنائی گئی ہے اسے یکسوئی کے ساتھ پڑھ کر یا سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ بیراج ہماری آنکھوں کے سامنے بنا اور یہی بات سکھر بیراج کے میوزیم کی اہمیت کو چار چاند لگاتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سکھر بیراج نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام کا اعزاز رکھنے والا منفرد بیراج ہے جو خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سکھر بیراج دریائے سندھ پر بننے والا پہلا بیراج ہے جس کی تعمیر قیام پاکستان سے قبل یکم جولائی 1923ء میں شروع ہوئی اور 13جنوری 1932ء میں یہ بیراج مکمل ہوا۔

بیراج کی تعمیر پر خرچ ہونے والی کل رقم 20کروڑ روپے تھی۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود سکھر میوزیم میں بیراج کی تعمیرات کے کام کے آغاز سے لے کر تکمیل تک کے تمام مراحل کو جس احسن انداز میں ریکارڈ کا حصہ بناکر محفوظ کیا گیا ہے وہ کارنامہ بھی اپنی جگہ انتہائی اہمیت کا حامل اور قابل ستائش ہے۔

حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ سکھر بیراج کے میوزیم کی اہمیت کے پیش نظر اسے بہتر سے بہتر بنانے کے لئے موثر اقدامات کرے۔ سکھر بیراج کے میوزیم میں بیراج کی تعمیرات کے حوالے سے باریک سے باریک پہلوئوں کو بھی تفصیل کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔

حکومت سندھ اگر تھوڑی سی توجہ دے کر اس تمام ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا منصوبہ بناکر اسے اختتام تک پہنچائے اور پھر اس ریکارڈ کی معلومات کی تفصیلی فراہمی کے لئے ملک بھر کے انجینئرز کو خصوصی تربیت فراہم کی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اس قدر حیرت انگیز و شاہکار بیراج تعمیر کرنے کی معلومات حاصل کرنے والے انجینئرز قدامت کو جدت کے لبادے میں ڈھال کر فن تعمیر کے ایسے شاہکار بنانے کی صلاحیت کے حامل ہوجائیں گے کہ جنہیں دیکھ کر دنیا عش عش کر اٹھے گی۔