کالی چٹی باتیں !

March 31, 2016

جیسے بندوں کی پوجا کر کے بھی ہم اللہ کے بندے، جیسے سنتوں کے قاتل ہو کر بھی ہم عاشقِ رسول ؐ ،جیسے طاقتوروں کو سلام اور کمزوروں کو دھکے مار کر بھی ہم انسا ن ،جیسے خالق کے شکوے اور مخلوق کی غیبتیں کر کے بھی ہم مسلمان ، جیسے زندگی فرعون کی گزار کر ہم آخرت موسیٰ ؑجیسی چاہیں ، جیسے ڈکٹیٹر شپ کی آگ پر ہم جمہوری دیگیں پکائیں ، جیسے ہماری ہر عقیدت بصیرت سے خالی ، جیسے ہماری ہر محبت غلو میں ڈوبی ہوئی ، جیسے اسلام میں ہم اپنا اسلام مِلا چکے ،جیسے سچ کو ہم جھوٹ کا تڑکا لگا چکے یا پھر جیسے ہمارے ہر ا صل میں نقل ،ہر عبادت میں ریاکاری ،اور رشتوں اور رسموں سے دعاؤں اور دواؤں تک ہر شے میں ملاوٹ اور بناوٹ مطلب جیسے ہم خیر اور شر کا Mixtureایسے ہی حاضر ہے آج کالی اورچٹی باتوں کا Mixture۔ پہلے ملاحظہ فرمائیں چند کالی باتیں ۔۔!
جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو موبائل بند ،اسکول بند ،دفتر بند اور سڑکیں بند،بھائی جان دشمن بھی تو یہی چاہتا ہے، اگر ان بھٹکے ہوئے بزدلوں کی بولتی بند کرنی ہے تو پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے ذہنوں سے سڑکوں تک سب کچھ کھلا رکھیں ، یہ اپنی موت آپ مر جائینگے ۔ویسے توعورتوں اور بچوں کو مارنے والے زندہ ہو ہی نہیں سکتے یہ تو زندہ لاشے ہیں !جب وزیراعظم پاکستان کے گھر سے مودی نکلے گا،جب ملک کی چوتھی بڑی پارٹی کا سربراہ بھارت کی گود میں بیٹھا ملے گا ، جب اپنے سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری چنائی میں ہوگی ، جب بمبئی دھماکوں سے پٹھانکوٹ تک بھارت کا رویہ چوہدریوں اور ہمارا مزارعوں والا ہو گا اور جب ڈالر ہر شے پر بھاری ہوگا تب ملک سے را کے ایجنٹ ہی نکلیں گے ،میجر عزیز بھٹی جیسے نکلنے سے تو رہے ، لیکن ستم ظریفی تو یہ کہ دشمن ہماری جڑیں کاٹ رہاہے جبکہ ہماری آنیاں جانیاں ہی ختم نہیں ہور ہیں ۔ساڑھے 20ارب ڈالر کے زرِمبادلہ پر لڈیاں ڈالنے والوں کو کیا پتا نہیں کہ قرضہ 70ارب ڈالر ہوگیا ، کیا انہیں معلوم نہیں کہ جب قرضہ 100بلین ڈالر تک پہنچے گا تب ہمارے آقا ہمیں یہ آپشن دیں گے کہ یا توBankruptcy یا پھر نیوکلیئر رول بیک ۔ خطرناک بات تو یہ کہ ابھی تک جو کچھ ہوا وہ آقا ؤں کےا سکرپٹ کے مطابق ہوا …اب آگے…
کہنے کو تو ہم مسلم امہّ کا قلعہ مگر ہمارے پاسپورٹ کی ویلیو افغانستان کے بعد سب سے نیچے، کہنے کو تو اپنے حکمرانوں کو حکمرانیاں کرتے 35سال ہو گئے مگر پھر بھی خود کو سننے اور خود کو دیکھنے کی بھوک کا یہ عالم کہ لائیو اسٹا ک اور ڈینگی کے اشتہاروں سے سرکاری اسکولوں کے بلیک بورڈوں تک ہر جگہ عزت مآب خود ہی ۔ میں اپنی جمہوریت کو تب مانوں گا جب مسلم لیگ شریف فیملی اور پی پی بھٹوؤں کی قید سے آزاد ہوگی اور میں اپنی جمہوریت کو تب مانوںگا جب کوئی لیگی اپنے قائد اور کوئی جیالا اپنے چیئرمین سے یہ پوچھ سکے کہ حضور جب آپ سیاست میں آئے تو آپکے پاس کیا کچھ تھا ،اب کیا کچھ ہے اوریہ سب کچھ کہاں سے آیا ۔ ایسی جمہوریت کیلئے تو جان بھی حاضرمگر ایسی ہو تو سہی ۔’’ آفریدی اینڈ کمپنی‘‘ کا کیا قصور، جب خود چلنے سے قاصر چلے ہوئے بابے پالیسیاں بنائیں گے تو پھر نتیجہ یہی نکلے گا ، ابھی بھی وقت ہے بابے نہیں تو ان کی چڑیوں کا ہی کچھ کر لیں، ورنہ افغانستان سے بھی ہارنا پڑے گا ۔
جب سے حسینہ واجد چُن چُن کر پاکستان نواز لوگوں کو ماررہی ہے تب سے مجھے یہ انتظار کہ وہ پاکستانی جن کے بنگلہ دیشی حکومت سے تعلقات ہیں وہ کیا ردعمل اختیار کرتے ہیں۔ 1982ءمیں جب سنگا پور میں’’لوک پال بل‘‘ نافذ ہوا تو پھر ایک دن میں 142کرپٹ وزراء اور افسروں کو ہتھکڑیاں لگیں اور یوں وہ سنگا پور جو کبھی کرپشن کا گڑھ تھا اسی سنگاپور میں کرپشن کی شرح ایک فیصد سے بھی نیچے آگئی اور وہ سنگا پور جہاں کبھی 90فیصدمنی بلیک ہوا کرتی تھی اسی سنگاپور میں اب 90فیصد منی وائٹ ،مگر یہاں خراب نیتوں کا نتیجہ دیکھیں کہ ہر قانون اور ہر ادارے کے ہوتے ہوئے بھی روزانہ 22ارب کی کرپشن اور کالے دھن کا حجم 20کھرب اور اوپر سے مزے کی بات یہ کہ یہاں کوئی ایک بھی گناہ گار نہیں ،سب کے سب معصوم ۔ بس کافی ہو گئیں کالی باتیں …چھوڑیں… کیا دل جلانا۔۔ ان باتوں سے یہاں کسی کو بھلا کیا فرق پڑے گا لہٰذا حاضر ہیں اب دل ودماغ کو روشن کر دینے والی چٹی باتیں…!
حضورؐ سے پوچھا گیا ’’اللہ کے دل میں ہمار ا کیا مقام ہے ‘‘ جواب ملا’’جوتمہا رے دل میں اللہ کا مقام ہے ‘‘ ( اپنے دلوں میںجھانکیئے گا)۔
حضرت علی ؓ سے سوال ہوا ’’بندہ پریشان کب ہوتا ہے ‘‘ فرمایا ’’ بندہ پریشان تب ہوتا ہے جب وہ نصیب سے زیادہ چاہے اور وقت سے پہلے چاہے (کاش بات سمجھ میں آجائے ) ۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کااصل طریقہ یہی کہ اللہ کی نعمتیں شیئر کریں ( یاد رکھیں آج تک کوئی دینے والاکنگال نہیں ہوا )۔
اشیا ء کا حصول ،مال کی تمنا اور مرتبوں کی حسرت صحرا کی ویرانیو ں کے سوا کچھ نہیں ۔جب گھر سامان سے ،دل تمناؤں سے اور پیٹ خوراک سے بھرا ہوگا توپھر ذہن کا خالی ہونا لازمی ، بھلا پیسے گننے والاخیال کی بلندیوں کو کیا جانے ۔
ایک ملک کی سچائی کبھی دوسرے ملک کی سچائی نہیں ہوتی،جیسے ہندو ستان میں جو سچ ،پاکستان میں وہی جھوٹ، ہندو گائے کو پوجیں، ہمارے ہاں گائے کا مقصد پیٹ پوجا،اپنے ہاں کتے بلیاں نجس مگر کروڑوں افراد کی یہ مرغوب غذا اور پھر جیسے ایک زمانے کا جھوٹ دوسرے زمانے کا سچ بھی ہو سکتا ہے ایسے ہی فاصلوں سے سچ نظرآنے والی شے قریب پہنچنے پر جھوٹ ، فریب یا نظر کا دھوکا بھی ہوسکتی ہے ۔جیسے زمین پر تو چاند کی چاندنی ہے لیکن چاند پر چاند کی چاندنی نہیں۔
برے دن آجائیں توپھر سب تدبیریں الٹی ہو جائیں (خود کو دیکھ لیں ) ۔
کبھی کسی کے احسان کو اپنا حق نہ سمجھ لینا ( اپنے اعمال اور اللہ کی مہربانیوں کا سوچ کر اسے ایک بار پھر پڑھیں )۔
بزرگوں کی یاد یں منانے سے بزرگوں کا فیض نہیںمِلا کرتا (اورہم۔۔۔ہم تو بزرگوں کے دن بھی اس بھونڈے انداز سے منائیں کہ اب ہم سے تو خود بزرگ بھی تنگ )۔
جو یہ جان گیا کہ دولت اور مال میں سکون نہیں ، وہ ہر راز پاگیا ( تاریخ بتائے کہ بادشاہوں نے بادشاہی چھوڑ کر درویشی تو اختیار کی مگر کبھی کسی درویش نے درویشی چھوڑ کر بادشاہت نہیں چنی )۔
اگر ایک انسان دوسرے انسان کی صرف بات ہی توجہ سے سن لے تو عقائد کا آدھا تضاد تو خود بخود ہی ختم ہوجائے (مگر وہ کیا کریں کہ جنہیں صرف اپنی آواز پسند )۔
ان حضرات کو کیانام دیا جائے کہ جن کے سر پر تو کتابوں کی گٹھریاں مگر دل و دماغ خالی ( انہی حضرات نے تو تباہی پھیلا رکھی ہے) ۔
ہر صاحبِ عمل جنت میں نہیں جاتا اور ہر گناہ جہنم میں نہیں پہنچاتا (اصل شے مالک کا فضل ) ۔
ہم گھروں میں پنجابی ،دفتروں میں اُردو، میٹنگوں اور سمینارز میں انگریزی بول کر عبادت عربی میں کریں ( ویسے ہم بڑے ہو کر بنیں گے کیا )
ظلم کرنا گناہ اور ظلم سہنا گناہِ کبیرہ (ظالم حکمرانوں اورمظلوم قوم کے نام )۔
پروفیسر صاحب نے پانی سے بھر اگلاس اٹھا کر طلباء سے پوچھا ’’ گلاس کا وزن کیا ہوگا؟ ‘‘ایک بولا 150گرام ، دوسرے نے کہا 200گرام،تیسری آوازآئی 250گرام ، یہ سن کر پروفیسر صاحب بولے’’ اگر میں اس گلا س کو چند منٹوں کیلئے اُٹھائے رکھوں تو کچھ ہوگا‘‘ ، جواب آیا ’’نہیں سر کچھ نہیںہوگا‘‘، پروفیسر کا اگلا سوال تھا کہ’’ اگر میں گلا س کو ایک گھنٹے تک اُٹھائے رکھوں تو پھر‘‘ ،جواب ملا ’’سر آپکے بازو میں درد شروع ہو جائے گا ‘‘ اور اگر میں اسے یونہی سارا دن اُٹھائے رکھوں تو ،پروفیسر کے اس سوال پر ایک طالبعلم بولا ’’ تو پھر سر آپکا بازو شل ہو سکتا ہے ، آپکا پٹھا اکڑ سکتا ہے اور سر یہ بھی ممکن ہے کہ آپکو اپنے چہیتے گلاس سمیت اسپتال جانا پڑے ‘‘ ، پوری کلاس ہنسی مگر پروفیسر صاحب کی سنجیدگی برقرار رہی وہ بولے’’ جب گلا س کاو زن صرف دو ڈھائی سو گرام ہے تو پھر اسکے اُٹھانے سے بھلا میں اسپتال کیسے جا سکتا ہوں ؟‘‘ کلاس میں خاموشی چھا گئی اور کافی دیر تک جب کوئی جواب نہ آیا توپھر پروفیسر کی آوازگونجی ’’ بات بڑی سادہ سی ہے کہ میں گلا س اُٹھانے سے نہیں بلکہ گلاس مسلسل اُٹھانے سے اسپتال پہنچوں گا ‘‘ اور میں آج یہی بتانا اور سمجھانا بھی چاہتا ہوں کہ’’ جب ہم اپنی زندگیوں میں اس گلاس جتنی معمولی پریشانیاں بھی مسلسل اُٹھائے رکھتے ہیں تو پھر ایک دن ہمارے دل کا کوئی بازو شل ہو جاتا ہے ،دماغ کا کوئی پٹھا اکڑ جاتا ہے اور آخرکار ہم اسپتال کے ہی ہو کر رہ جاتے ہیں ‘‘ ، لہٰذا آپ سب سے کہنا یہی کہ زندگی میں کبھی کوئی گلاس مسلسل نہیں اُٹھانا۔ تو دوستو! کیوں کیا خیال ہے ، کیا تھوڑی دیر کیلئے ہم بھی اپنے اپنے گلاس رکھ نہ دیں۔