راجہ۔ تیرا وعدہ

March 07, 2013

گزشتہ سال وزارت عظمیٰ کا قلم دان سنبھالنے سے چند ہفتہ قبل میری راجہ پرویز اشرف کے ساتھ کچھ ملاقاتیں ہوئیں۔ اُس وقت راجہ صاحب وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی تھے۔ ان ملاقاتوں کا مقصد یہ تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذیلی ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ذریعے ملک میں ایک ایسا انٹرنیٹ سکریننگ یا فلٹریشن سسٹم لگایا جائے جس کے ذریعے اسلام مخالف اور فحش مواد کو روکا جاسکے تا کہ انٹرنیٹ کے مثبت استعمال کو فروغ دیا جائے۔ اُن دنوں انٹرنیٹ پرگستاخانہ مواد کافی چل رہا تھا اور حکومت ایسے مواد کو روکنے میں بے بس نظر آ رہی تھی۔ اس موضوع پر پہلی ہی ملاقات میں راجہ صاحب نے مجھ سے مکمل اتفاق کیا کہ اسلام مخالف اور فحش مواد کو ہر حال میں روکا جائے گا اور اس کے لیے فوری ضروری احکامات بھی جاری کیے جائیں گے۔ راجہ صاحب نے مجھے یہاں تک کہا کہ بحیثیت وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی جس نوعیت کااسلام مخالف اور گستاخانہ مواد اُن کو دکھایا گیا وہ کسی بھی غیرت مند مسلمان کے لیے قابل برداشت نہیں، اس لیے ایسے مواد کو ہر حال میں روکا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ کام اپنا دینی اور قومی فریضہ سمجھ کر ادا کریں گے۔ فحش مواد کے بارے میں بھی راجہ صاحب کاخیال تھا کہ یہ سب ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار اور روایات کے برخلاف ہے، اس لیے اس کا بھی روکا جانا ضروری ہے۔اس اتفاق رائے کے بعد راجہ صاحب کی وزارت کے اُس وقت کے سیکرٹری اور موجودہ ممبر فاروق اعوان اور میں نے مل کر ایک نوٹیفیکیشن تیار کیا جس میں پی ٹی اے کو ہدایت جاری کی گئی تھی کہ وہ فوری طور پر کچھ دوسرے ممالک کی طرز پر پاکستان میں فلٹریشن سسٹم لگائیں تاکہ اسلام مخالف اور فحش مواد کو روکا جا سکے۔ یہ حکم نامہ شاید گزشتہ سال مئی میں جاری بھی ہو گیا۔ مجھے راجہ صاحب نے بتایا کہ اس سلسلے میں انہوں نے صدر زرداری سے منظوری بھی لے لی تھی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد راجہ صاحب غیر متوقع طور پر پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے جبکہ فاروق اعوان کو چئیرمین پی ٹی اے بنا دیا گیا۔ مجھے توقع تھی کہ وزیر اعظم بننے پر راجہ صاحب اپنے فیصلہ پرفوری عملدرآمد کروائیں گے۔ گستاخانہ مواد پر غم و غصہ اور فحش مواد کو روکنے کے لیے جس ارادہ کا اظہار کیا تھا وہ سب وزیر اعظم بننے کے بعد گم ہو گیا۔ میں نے سوچا وزیر اعظم صاحب اپنے حکومتی امور میں بہت مصروف ہوں گے اس لیے ہو سکتا ہے کہ اپنا ”عزم“ اور” غیرت“ بھول گئے ہوں۔ یاد دہانی کے لیے میں نے چند ماہ قبل وزیر اعظم صاحب سے ملاقات کی اور انہیں اس سلسلے میں اُن کی دینی اور قومی ذمہ داری کا احساس دلانے کو شش کی۔ میں نے تو ان سے یہ بھی گزارش کی کہ وزیر اعظم بننے پر تو اُن کو یہ بھی چاہیے کہ پیمرا کے ذریعے ٹی وی چینلز سے پھیلائی جانے والی بے حیائی اور عریانیت کو بھی فوری طور روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اُنہوں نے ایک بار پھر وعدہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ضرور پوری کریں گے۔ اس کے بعد بھی میں اُن کے کچھ قریبی معاونوں کے ذریعے راجہ صاحب کو یاد دہانی کراتا رہا مگر کچھ نہ ہوا۔گویا میرے ساتھ” وہ وعدہ ہی کیا، جو وفا ہو گیا “ والی صورت حال تھی۔ اسی دوران یو ٹیوب پر ایک امریکی کی طرف سے اسلام دشمن فلم چلنے پر پوری دنیا کے علاوہ پاکستان میں سخت احتجاج کیا گیا۔ پاکستان کے کچھ علاقوں میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی، جس سے اربوں کی املاک کے علاوہ کئی معصوم جانوں کا بھی ضیاع ہوا۔ ان واقعات کے بعد حکومت نے فوری طور پر یو ٹیوب بند کر دی۔ اگر فلٹریشن سسٹم پہلے ہی لگا دیا جاتا تو اس طرح یو ٹیوب بند کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی ۔ امید تھی کہ ان واقعات سے حکومت سبق سیکھے گی اور اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے نہ صرف فلٹریشن سسٹم لگائے گی بلکہ گوگل ایڈمنسٹریشن کے ساتھ بھی انڈیا، انڈونیشیا کی طرز کا ایک ایسا معاہدہ کرے گی جس کے تحت کسی بھی اسلام دشمن مواد کو گوگل کے ذریعے یو ٹیوب پر پاکستان میں روکا جا سکے گا۔ مگر اس سب کے باوجود کچھ نہ ہوا۔ ایک موقع پر وزیر داخلہ کے کہنے پریو ٹیوب کو اچانک دوبارہ کھول دیا گیا اور ایک بار پھر اسلام دشمن فلم پاکستان میں دیکھی جانے لگی۔ اس سلسلے میں جیسے ہی میڈیا نے شور مچایا وزیر اعظم نے یو ٹیوب کو دوبارہ بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے ۔ یوٹیوب آج بھی بند ہے مگر اصل مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ نہ گوگل کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوا اور نہ ہی چین، دبئی، سعودی عرب وغیرہ طرز کا فلٹریشن سسٹم لگایا جا سکا۔ اب تو راجہ صاحب کے کوچ کرنے کا وقت ہے۔ ہم عوام تو حکمرانوں سے کچھ پوچھنے کا حق ہی نہیں رکھتے، چاہے وہ لوٹ مار کریں یا عوام سے کیسی ہی زیادتی۔ مگر یوم حشر اللہ تعالیٰ حکمرانوں سے ضرور پوچھے گا کہ آیا تم نے اپنے فرائض منصبی کو پورا کیا؟ میری مخلوق کو اُس کے حقوق ادا کیے؟ اللہ کے نظام کے نفاد کے لیے کردار ادا کیا؟ راجہ صاحب نے اپنے ساتھیوں کی ہر خواہش پوری کی، اپنے عزیرو اقارب کو بھی خوب نوازا ، قومی خزانے سے پیسہ بھی خوب لٹایا، سرکاری نوکریاں بھی اپنے پیاروں پر نچھاور کیں، کرپٹ افراد کو بچانے کا بھی فرض خوب ادا کیا، اپنے حلقے میں پندرہ ارب روپے خرچ کیے، جاتے جاتے پی پی پی کے ممبران قومی اسمبلی کے کے پانچ ارب روپے بھی منظور کیے مگر وہ کام نہ کیا جس کا تعلق نبیﷺ کی حرمت اور پاکستان کی نوجوان نسل کے مستقبل سے تھا۔ پی ٹی اے کے ایک افسر کے مطابق فلٹریشن سسٹم اس لیے نہ لگ سکا کیوں کہ اس پورے عرصہ میں حکومت یہ فیصلہ نہ کر سکی کہ یہ پیسہ کون سا محکمہ دے گا۔ تف ہے ۔