بیوی بھی کسی کی بہن یا بیٹی ہوتی ہے

January 24, 2020

تحریر : قاری عبدالرشید ۔۔اولڈھم
بیوی کے اپنے خاوند پر کچھ تومالی حقوق ہیں جن میں مہر ، نفقہ اوررہائش شامل ہےاورکچھ حقوق غیر مالی ہیں جن میں بیویوں کے درمیان
تقسیم میں عدل انصاف کرنا ، اچھے اوراحسن انداز میں بود باش اورمعاشرت کرنا ، بیوی کوتکلیف نہ دینا وغیرہ شامل ہیں۔1: مالی حقوق : مہر۔مہر وہ مال ہے جو بیوی کااپنے خاوند پر حق ہے جوعقد نکاح کی وجہ سے عائد ہوتا ہے ، اوریہ بیوی کا خاوند پر اللہ تعالی کی طرف سے واجب کردہ حق ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :اورعورتوں کوان کے مہر راضی خوشی دے دو (النساء )اورمہر کی مشروعیت میں اس عقد کے خطرے اورمقام کا اظہار اورعورت کی عزت و تکریم اوراس کے لیے اعزاز ہے ۔2: نان ونفقہ ۔علماء اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ بیویوں کا خاوند پر نان ونفقہ واجب ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگرعورت اپنا آپ خاوند کے سپرد کردے توپھرنفقہ واجب ہوگا ، لیکن اگر بیوی اپنے خاوندکونفع حاصل کرنے سے منع کردیتی ہے یا پھر اس کی نافرمانی کرتی ہے تواسے نان ونفقہ کا حقدار نہیں سمجھا جائے گا ۔بیوی کے نفقہ کے وجوب کی حکمت ؟ عقد نکاح کی وجہ سے عورت خاوند کے لیئے محبوس ہے اورخاوند کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر نکلنا منع ہے ، تواس لیے خاوند پرواجب ہے کہ وہ اس کے بدلے میں اس پرخرچہ کرے اوراس کے ذمہ ہے کہ وہ اس کوکفایت کرنے والا خرچہ دے ، اوراسی طرح یہ خرچہ عورت کا اپنے آپ کوخاوند کے سپرد کرنے اوراس سے نفع حاصل کرنے کے بدلے میں ہے ۔نان ونفقہ کا مقصد :بیوی کی ضروریات پوری کرنا مثلا ًکھانا ، پینا ، رہائش وغیرہ ، یہ سب کچھ خاوند کے ذمہ ہے اگرچہ بیوی کے پاس اپنا مال ہو اوروہ غنی بھی ہوتوپھر بھی خاوند کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہے ۔اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان عورتوں کا روٹی، کپڑا اوررہائش دستور کے مطابق ہے (البقرۃ) اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :اورکشادگی والا اپنی کشادگی میں سے خرچ کرے اورجس پر رزق کی تنگی ہو اسے جو کچھ اللہ تعالی نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا چاہيے (الطلاق) حدیث شریف میں ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تم عورتوں کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے،اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتےہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جوزخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اوررہائش دو( مسلم )3:سکنی یعنی رہائش دو:یہ بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ خاوند اس کے لیے اپنی وسعت اورطاقت کے مطابق رہائش تیار کرے ۔اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہا ں انہيں بھی رہائش پذیر کرو (الطلاق) (4) غیرمالی حقوق :میں سے یہ ہے: بیویوں کے درمیان عدل وانصاف :بیوی کا اپنے خاوند پر حق ہے کہ اگر اس کی اور بھی بیویاں ہوں تووہ ان کے درمیان رات گزارنے ،نان ونفقہ اورسکن وغیرہ میں عدل و انصاف کرے ۔2:حسن معاشرت :خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اورنرمی کا برتاؤ کرے ،اوراپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جواس کےلیئے محبت والفت کا باعث ہوں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :اوران کے ساتھ حسن معاشرت اوراچھے انداز میں بود وباش اختیارکرو (النساء)اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمايا :اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے حق ہیں( البقرۃ) :حدیث شریف۔ میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :عورتوں کے بارہ میں میری نصیحت قبول کرو اوران سے حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو (بخاری)3:بیوی کوتکلیف سے دوچارنہ کرو :یہ اسلامی اصول بھی ہے،اورجب کسی اجنبی اوردوسرے تیسرے شخص کونقصان اورتکلیف دینا حرام ہے توپھر بیوی کوتکلیف اورنقصان دینا تو بالاولی حرام ہوگا۔ اب ایک طرف تو یہ احکام ہیں جن میں اللہ تعالی اوررسول اللہ صلی علیہ وسلم کے واضح ارشادات ہیں۔جن کے مخاطب خاوند ہیں۔ان پر کون،کتنا اور کہاں عمل کرتا ہے۔اور کون نہیں کرتا؟ہم غور کرلیں۔ہمارے معاشرے میں خواتین خاص کر بیویوں کے ساتھ جو زیادتی ہم سے روا رکھی جاتی ہے ۔اگرچہ ہمیں سمجھ میں نہیں آتی لیکن بدلہ اس کا اپنی آنکھوں سےاس دنیا میں ہی اپنی بیٹی یابہن پر اترتا دیکھتے ہیں توپھر اپنے داماد اور بہنوئی کوتو بیوی کے حقوق کا درس دینے دوڑ جاتے ہیںلیکن اپنے گھر میں موجود کسی کی بیٹی اور بہن کےحقوق جو ہمارے ذمے ہیں وہ یاد نہیں ہوتے۔