خسرو بختیار اور بھائی کیخلاف نیب انوسٹی گیشن کی منظوری

January 28, 2020

عمر چیمہ

اسلام آباد :… ایک سال تک گومگو کا شکار رہنے کے بعد نیب نے وفاقی وزیر برائے پلاننگ مخدوم خسرو بختیار اور ان کے بھائی پنجاب کے وزیر خزانہ ہاشم جوان بخت کیخلاف الزامات کے حوالے سے باضابطہ انوسٹی گیشن کی منظوری دیدی ہے، اُن کے اثاثے اربوں روپے تک بڑھ گئے ہیں۔

صورتحال سے باخبر ایک عہدیدار نے بتایا کہ انوسٹی گیشن شروع کرنے کا فیصلہ نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے 16؍ جنوری کو ہونے والے اجلاس میں دی گئی۔ نیب کے ترجمان نے وعدہ کیا کہ وہ تصدیق کے بعد ہی جواب دیں گے لیکن دی نیوز کی جانب سے بعد میں کئی مرتبہ فون کال کرنے کے باوجود انہوں نے جواب نہیں دیا۔

خسرو نے بھی کئی مرتبہ کال کرنے کے باوجود جواب نہیں دیا۔ انہیں ایک ایس ایم ایس بھی بھیجا گیا لیکن اس کا بھی جواب نہیں آیا۔ دونوں وزراء بھائیوں کیخلاف شکایت درج کرانے والے احسن عابد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ نیب افسر، جو چیئرمین نیب کی طرف سے بات کر ررہے تھے، نے انہیں جمعہ کو ہونے والی میٹنگ میں بتایا کہ کیس کو انوسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے 2018ء میں شکایت درج کرائی تھی۔ اُسی سال ستمبر میں نیب ہیڈکوارٹرز نے ان کی شکایت کو نیب ملتان کو تصدیق کیلئے بھجوایا جہاں تین ماہ انکوائری کے بعد الزامات کی تائید کی گئی اور رپورٹ ہیڈکوارٹرز بھجوائی گئی کہ شکایت قابل بھروسہ ہے کہ اسے باضابطہ طور پر انوسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا جائے اور تفصیلی سوالات کیلئے وزراء کو طلب کیا جاسکتا ہے۔

ہیڈکوارٹرز نے کسی بھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا باوجود اس حقیقت کے کہ شکایت گزار نے مئی 2019ء میں لاہور ہائی کورٹ میں شکایت درج کرائی تھی کہ ان کے کیس کا فیصلہ وقت پر اور میرٹ کے مطابق کیا جائے جیسا کہ اپوزیشن رہنمائوں کے مقدمات کے معاملے میں کیا جا رہا ہے۔

نتیجتاً عدالت نے نیب کو نوٹس جاری کیا لیکن بیورو حالیہ دنوں تک کوئی فیصلہ نہ کر پایا۔ معلوم ہوا ہے کہ نیب کی جانب سے وزیر کو چند نوٹس جاری کیے گئے تھے؛ آخری نوٹس اگست 2019ء میں جاری کیا گیا تھا۔ وزیر نے یہ نوٹس نیب پر اثر رکھنے والوں کو ارسال کیے اور ان سے کہا کہ وہ نیب کو سمجھائیں۔

یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایسا کیا ہوا کہ نیب نے انوسٹی گیشن شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ نیب ملتان کی جانب سے ہیڈکوارٹرز میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ کے مطابق وزراء کی فیملی نے گزشہ دہائی کے 6؍ سال میں زبردست سرمایہ کاری کی ہے۔

چار شوگر ملیں لگائی گئیں، پانچ پاور جنریشن کمپنیاں لگائی گئیں، چار ٹریڈنگ کمپنیاں جن میں سے ایک لندن میں ہے، ایک ایتھنول مینوفیکچرنگ کمپنی اور دو مزید کمپنیاں کھولی گئیں۔

ریجنل آفس کی جانب سے ہیڈکوارٹرز میں بھجوائی گئی تصدیق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’ان کی زرعی زمین 5702؍ کنال (712؍ ایکڑ) سے بڑھ کر 7780؍ کنال (972؍ ایکڑ) ہوگئی یعنی قلیل عرصہ میں 260؍ ایکڑ کا اضافہ ہوا، اس کے علاوہ مختلف شہروں میں 6-7 رہائشی گھر اور پلاٹس بھی ہیں۔‘‘ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خسرو نے ڈی ایچ اے لاہور میں اپنے نام سے جو چند جائیدادیں خریدی ہیں وہ انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیں۔

مزید بتایا گیا ہے کہ 2011ء سے 2018ء تک خسرو فیملی کو بیرون ملک سے 97؍ کروڑ 90؍ لاکھ روپے تک کی رقم موصول ہوئی۔ نیب رپورٹ کے مطابق، مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے والے وزیروں کی فیملی کے اثاثوں کی موجودہ مالیت 100؍ ارب روپے سے بھی زیادہ ہے۔ زمینوں کی مالک اس فیملی نے سرکردہ صنعتکاروں کے گروپ کا حصہ بننے کیلئے کیسے چھلانگ لگائی؛ یہ اب بھی ایک پہیلی ہے۔ اتنی بڑی سلطنت بنانے کیلئے انہوں نے بینک سے کوئی قرضہ بھی نہیں لیا۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انکوائری کرائی جائے اور ملزمان سے پوچھ گچھ کی جائے تو مزید اثاثے بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ تاحال جو معلومات جمع کی گئی ہیں ان کا ماخذ کارپوریٹ ٹیکس ریکارڈ، ٹیکس گوشواروں، ریونیو دستاویزات، بینکاری کی معلومات اور سفری معلومات ہیں۔

وزیر خود بھی اکثر و بیشتر غیر ملکی سفر کرتے رہتے ہیں۔ صرف گزشتہ پانچ سال میں خسرو 189؍ مرتبہ بیرون ملک گئے یعنی ہر ماہ تقریباً تین مرتبہ۔ وہ بیرون ملک جا کر کیا کرتے ہیں؛ یہ تاحال معلوم نہیں اور معلوم کرنے کیلئے انہیں انوسٹی گیشن کیلئے حراست میں لینا ضروری ہے۔ مختلف ریکارڈ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے بھائیوں کی تعداد بھی مختلف ہے۔

نادرا ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیر کا ایک بھائی ہے (جو صوبائی وزیر خزانہ ہیں) جبکہ زمین کا یعنی لینڈ ریکارڈ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دو بھائی ہیں۔ نیب کی شکایت کی تصدیق رپورٹ میں فیملی کے ترقی کرنے کو وجوہات کا اندازہ ہو جاتا ہے:… ’’2006ء سے فیملی کے اثاثوں میں غیر معمولی طور پر اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

زرعی فیملی ’’پتہ نہیں کیسے‘‘ صنعتکار فیملی بن گئی اور آمدنی سے زیادہ ذرائع سے کارپوریٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے لگی۔‘‘ کاروباری لحاظ سے دیکھیں تو شوگر ملز کا بزنس بہت بڑا ہے، اور شوگر ملز کی تعداد 4؍ ہے۔ چاروں میں وزیر کے بھائی اور والدہ شیئر ہولڈرز ہیں۔ ان میں سے ایک مل 2006ء میں لگائی گئی جس میں ایک ارب روپے کا سرمایہ لگایا گیا۔ اس میں وزیر کے بھائی اور والدہ شیئر ہولڈرز ہیں۔

دوسری مل 2007ء میں لگائی گئی جس میں دو ارب روپے کا سرمایہ لگایا گیا۔ یہاں بھی وزیر کے بھائی (اور ان کی اہلیہ) ا ور والدہ شیئر ہولڈرز ہیں۔ تیسری شوگر مل 2016ء میں لگائی گئی؛ جبکہ چوتھی اور آخری شوگر مل لگائے جانے کی تاریخ واضح نہیں۔ جو بھائی شوگر ملز چلا رہا ہے ان کا ریکارڈ تفتیش کاروں نے نادرا میں دیکھا تو نہیں ملا۔ ایک شوگر مل میں وزیر کی اعلانیہ 13؍ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہے۔ فیملی کے زیر انتظام دیگر تین شوگر ملز میں ’’بظاہر ان کا بے نامی شیئر‘‘ ہے۔

نیب رپورٹ کے مطابق، پورا خاندان مشترکہ فیملی سسٹم میں رہتا ہے جس کی عکاسی ایک ہی رہائشی پتے سے ہوتی ہے۔ چار ٹریڈنگ کمپنیاں وزیر کے بھائی کے نام پر ہیں؛ ان میں سے ایک کمپنی لندن میں قائم کی گئی ہے۔ پانچ پاور جنریشن کمپنیاں جس شخص کے نام پر ہیں وہ نادرا ریکارڈ کے مطابق وزیر کا بھائی ہے۔

ہاشم جوان بخت ایتھنول مینوفیکچرنگ کمپنی کے مالک ہیں۔ جہاں تک زمینوں کی خریداری کا معاملہ ہے، تحقیقات کاروں کا کہنا ہے کہ 2004ء کے بعد سے زمینوں میں 260؍ ایکڑ زرعی زمین کا اضافہ ہوا ہے، اور اضافی 126؍ ایکڑ ان کے علاوہ ہیں؛ یہ زمین شوگر مل کیلئے خریدی گئی تھی۔

اس میں سے وزیر نے اپنے لیے 216؍ ایکڑ تملیک کے ذریعے اپنی والدہ سے حاصل کی، یہی زمین ان کی والدہ نے اپنی والدہ (وزیر کی نانی) سے تملیک کے ذریعے حاصل کی تھی۔ اور انہیں یہ زمین اپنی دو بیٹیوں سے حاصل کی تھی جنہیں یہ زمین ان کے والد (وزیر کے نانا) سے ورثے میں ملی تھی۔

ہیڈکوارٹرز کو بھیجی گئی رپورٹ میں ایک تحقیقات کار نے لکھا ہے کہ ’’اس زمین کے زیادہ تر حصے کی تملیک اسی روز ہوئی تھی اور میں نے دیکھا ہے کہ آئندہ برسوں میں وزیر کی خالہ کے اثاثوں میں اضافہ ہوا کیونکہ ان میں سے ایک نے ایک کروڑ 60؍ لاکھ روپے مالیت کی گاڑیاں خریدیں۔‘‘ اسی تحقیقات کار نے مزید لکھا ہے کہ ’’یہ تمام لین دین مشکوک لگتا ہے اور اس کی جامع تحقیقات کی ضرورت ہے کیونکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اصل بینیفشری کو چھپانے کیلئے تہہ در تہہ معلومات چھپائی گئی ہیں۔‘‘

وزیر کے غیر اعلانیہ پلاٹس کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1991ء میں ۔۔۔۔۔ روپے میں 269؍ کنال زرعی زمین خریدی گئی، 2015 ء میں ۔۔۔۔۔ روپے میں 36؍ کنال زمین خریدی گئی، وزیر نے ڈی ایچ اے لاہور میں نومبر 2017ء میں 5؍ مرلہ کے دو پلاٹس خریدے جن کا ذکر وزیر نے 2018ء کے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کاغذات نامزدگی میں نہیں کیا تھا۔

فیملی کی جانب سے 2004ء کے بعد شہری علاقوں میں 12؍ جائیدادیں خریدیں جو لاہور، اسلام آباد اور کراچی کے ڈی ایچ اے اور گلبرگ اور لاہور کینٹ میں ہیں۔

غیر ملکی زر مبادلہ کے حوالے سے، ’’فیملی اور وزیر کے ایف بی آر کے گوشواروں سے معلوم ہوتا ہے کہ 2011ء کے بعد سے انہیں بیرون ممالک سے رقوم موصول ہوئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیملی کی جانب سے بیرون ممالک میں سرمایہ لگایا گیا اور ان کے پاس بیرون ممالک جائیدادیں ہو سکتی ہیں۔

بیرون ممالک سے موصول ہونے والی مجموعی رقم 79؍ کروڑ 70؍ لاکھ روپے تھی جس میں سے 90؍ لاکھ روپے وزیر کے اکائونٹ میں گئے۔ وزیر کے بھائی کی ملکیت غیر ملکی کمپنی کے اعلانیہ 1.06؍ ارب روپے کے اثاثے ہیں جس کا اظہار 2018ء کے ایف بی آر گوشواروں سے ہوتا ہے، ساتھ ہی ان کے سٹی بینک نیویارک اور اماراتی این بی اے دبئی بینک میں اکائونٹس ہیں۔

خسرو بختیار کے قریبی ذرائع نے دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں، خسرو بختیار کی فیملی عرصہ دراز سے سیاست میں ہے، لوگ ان کے خاندان کو جانتے ہیں، یہ الزامات ایسے ہیں جو من گھڑت ہیں، کوئی بھی انکوائری یا انوسٹی گیشن ہو جائے خسرو بختیار ان کے اہل خانہ بے گناہ ثابت ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ میرٹ پر تحقیقات ہوں تو یہ سب الزامات لغو ثابت ہوں گے۔