شرح سود 13.25برقرار، مہنگائی میں مسلسل اضافہ، معاشی سست روی بدترین سطح تک پہنچ چکی، آئندہ مہینوں میں بہتری متوقع، گورنر اسٹیٹ بینک

January 29, 2020

شرح سود 13.25برقرار

کراچی(اسٹاف رپورٹر) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں شرح سود میں کوئی رددوبدل کرنے کے بجائے موجودہ معاشی صورتحال پر شرح سود 13.25 فیصدپر قائم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، بتایا گیا کہ ٹیکسٹائل، چمڑا،ربڑمصنوعات،انجینئرنگ سامان، سیمنٹ، کھاد پیداوار میں بہتری آئی ہے جبکہ دوسری جانب گاڑیوں، الیکٹرانکس، خوراک، کیمیکل اور پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔

مہنگائی میں مسلسل اضافہ،معاشی سست روی بدترین سطح تک پہنچ چکی،تاہم آئندہ مہینوں میں بہتری متوقع ہے۔ برآمدی صنعت کیلئے 200ارب کا فنڈ، بانڈز میں لوگوں کی دلچسپی،مہنگائی کی 11سے 12فیصد شرح سامنے رکھیں توحقیقی سود 2فیصد رہ جاتا ہےجو پاکستان کی تاریخ میں کم ترین ہےاس بات کا اعلان منگل کو گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے صدر دفتر میں پریس کانفرس میں کیا۔

دریں اثناء اایف پی سی سی آئی نے شرح سود 13.25 فیصد پر برقرار رکھنے کے اعلان پر مایوسی کا اظہار کیا ہے نائب صدر خرم اعجاز نے جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 13.25کی شرح سود ملک کی صنعتی ترقی اور سرمایہ کاری میں بڑی رکاوٹ ہے خطے میں پاکستان کی یوٹیلٹی کاسٹ سب سے زیادہ ہے ،بھاری ٹیکس کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ دیگر ممالک سے مسابقت نہیں کر پارہی ایسے میں بلند شرح سود کی وجہ سے ہم خطے میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں،وزیر اعظم معاشی پالیسی پر نظر ثانی کریں۔

گورنر اسٹیٹ بنک نے کہا کہ مہنگائی کا منظرنامہ زیادہ تر پہلے جیسا ہی رہا ہے۔ ایک جانب مہنگائی کے اعدادوشمار زیادہ تر بلند رہے اور بنیادی طور پر غذائی قیمتوں کے دھچکوں اور یوٹیلٹی نرخوں میں ممکنہ اضافے کی بنا پر مہنگائی کو مختصر مدتی خطرات لاحق رہے ہیں۔

دوسری جانب کئی عوامل ایسے ہیں جن کے نتیجے میں مہنگائی پر دباؤ بتدریج کم ہونے کی توقع ہے، مجموعی طور پر مالی سال 20ء کے لیے اسٹیٹ بینک کی اوسط مہنگائی کے لیے پیش گوئی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور وہ 11-12 فیصد ہے۔

ایم پی سی نے موجودہ زری پالیسی موقف کو آئندہ چھ تا آٹھ سہ ماہیوں کے دوران مہنگائی کے وسط مدتی ہدف 5-7 فیصد کی حدود میں لانے کے حوالے سے بھی موزوں قرار دیا۔

2۔ ​یہ فیصلہ کرنے میں ایم پی سی نے حقیقی، بیرونی اور مالیاتی شعبوں میں اہم تبدیلیوں کے ساتھ ان سے متعلق پیش گوئیوں اور ان کے نتیجے میں زری حالات اور مہنگائی کے منظرنامے کو پیش نظر رکھا۔

گزشتہ زری پالیسی کمیٹی اجلاس کے بعد ہونے والی تبدیلیاں3۔ ​ایم پی سی نے 22نومبر 2019ء کو ہونے والے گذشتہ اجلاس سے اب تک ہونے والی تین اہم تبدیلیوں کا ذکر کیا۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اوّل، جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں اور جاری کمی اور مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ نظام اپنائے جانے کے بعد زرمبادلہ مارکیٹ میں منظم حالات ملک کے بیرونی کھاتوں کو بہتر بناتے رہے، دوم، آئی بی اے -ایس بی پی کے کاروباری طبقے کے اعتماد کے سروے کی مسلسل تیسری لہر میں معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے کاروباری طبقے کے نقطہ نظر میں بہتری دیکھی گئی۔

سوم، مالیاتی تبدیلیاں درست راہ پر گامزن اور آئی ایم ایف کی مدد سے چلنے والے پروگرام کے تحت کیے گئے وعدوں سے ہم آہنگ رہیں جس سے مجموعی معاشی اصلاحاتی احساسات میں تیزی آئی۔

حقیقی شعبہ4۔​اہم فصلوں کی پیداوار کے تازہ ترین تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کپاس کے سوا خریف کی تمام فصلوں کی پیداوار توقع کے مطابق رہی، رسدی دھچکوں کے باعث کپاس کی پیداوار کے تخمینے میں کمی کی گئی۔ بڑے پیمانے پر اشیا سازی (ایل ایس ایم) سے ظاہر ہوتا ہے کہ برآمداتی اور درآمدی مسابقت پر مبنی صنعتوں میں معاشی سرگرمی بڑھ رہی ہے جبکہ ملکی نوعیت کی صنعتیں بدستور سست روی کا شکار ہیں، خاص طور پر ایل ایس ایم کے اعدادوشمار سے ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، انجینئرنگ کے سامان، ربڑ کی مصنوعات، سیمنٹ اور کھاد میں تیزی جبکہ گاڑیوں، الیکٹرانکس، غذا، کیمیکلز اور پیٹرولیم مصنوعات میں سست روی سامنے آئی،بنیادی طور پر کپاس کی پیداوار کو پہنچنے والے منفی رسدی دھچکوں اور اب تک ایل ایس ایم میں سکڑاؤ کی بنا پر امکان ہے کہ اسٹیٹ بینک مالی سال 20ء کے لیے حقیقی جی ڈی پی نمو کی پیش گوئی میں کمی کردے گا۔

تاہم سرگرمیوں کے دستیاب ماہانہ اظہاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ بیشتر معاشی شعبوں میں سست روی اپنی پست ترین سطح تک پہنچ چکی ہے اور آئندہ مہینوں میں بتدریج بحالی متوقع ہے، ایم پی سی نے ایل ایس ایم اشاریے کے معیار کے حوالے سے بھی تشویش ظاہر کی جو معاشی سرگرمی میں سست روی کو بڑھا کر بیان کرتا ہے، بیرونی شعبہ

5۔ ​ مالی سال 20ء کی پہلی ششماہی کے دوران جاری کھاتے کا خسارہ 75 فیصد کمی کے ساتھ 2.15 ارب ڈالر پر آ گیا ، جس کا سبب درآمدات میں نمایاں کمی اور برآمدات اور کارکنوں کی ترسیلات زر دونوں میں معتدل نمو ہے، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ جولائی تا دسمبر مالی سال 20ء میں چاول، قدر اضافی کی حامل ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات ، مچھلی اور گوشت سمیت اہم اشیا کی برآمدی مقدار میں قابل ذکر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

یہ صورت حال زیادہ مسابقت کی حامل شرح مبادلہ اور برآمدی شعبوں کی جانب سے ترغیبی قرضہ اسکیموں کو استعمال کرنے کے فوائد کی عکاس ہے۔ سرمایہ کھاتے میں بھی بیرونی پورٹ فولیو سرمایہ کاری اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری رقوم کی آمد کے باعث مسلسل بہتری کا رجحان رہا۔

6۔ ​مذکورہ سازگار حالات کی بدولت دسمبر 2019ء کے اوائل میں بین الاقوامی صکوک بانڈز کی مد میں 1.0 ارب امریکی ڈالر کی واپسی کے باوجود اسٹیٹ بینک کو اپنے زرمبادلہ ذخائر بڑھانے میں سہولت ملی۔

اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر آخر جون 2019ء تک 7.28 ارب ڈالر تھے جو 17جنوری 2020ء تک بڑھ کر 11.73 ارب ڈالر پر آ گئے۔ اس طرح ذخائر میں 4.45 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور مالی سال 20ء کے ابتدائی چھ مہینوں میں اسٹیٹ بینک کے قلیل مدتی واجبات میں 3.82ارب ڈالر کمی ہوئی۔ اس پیش رفت کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کے خالص بین الاقوامی ذخائر (NIR) کی پوزیشن میں خاصی بہتری آ چکی ہے ۔

7۔​ زری پالیسی کمیٹی نے رائے ظاہر کی کہ بیرونی پورٹ فولیو رقوم کی حالیہ آمد قرض کی ادائیگی کے حوالے سے پاکستان کی ساکھ کے بارے میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے بہتر ہوتے ہوئے احساس کی عکاس ہے۔

ایسی رقوم کی آمد سرکاری تمسکات (سیکورٹیز) کی طلب میں اضافے کے باعث سرکاری قرضے پر شرحِ سود گھٹا دیتی ہے ، بازار سرمایہ میں گہرائی لاتی ہے، اور ملکی بینکوں کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنے وسائل نجی شعبے کو بطور قرض جاری کر سکیں۔

کمیٹی نے تذکرہ کیا کہ اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کی موزونیت میں بہتری کا سبب جاری کھاتے میں بہتری ہے، نہ کہ پورٹ فولیو رقوم کی آمد، اور جاری رقوم کی آمد مجموعی قابلِ فروخت (marketable) سرکاری قرضے میں صرف 3.8 فیصد ہے۔ چنانچہ ایسی رقوم کی موجودہ سطح پر آمد محدود خطرات کی عکاسی کرتی ہے۔

زری پالیسی کمیٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے تبدیلیوں پر بدستور گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور اگر کچھ رقوم کا اخراج ہوا بھی تو منظّم انداز میں اس کے بندوبست کے لیے کافی رقوم بفرز کی صورت میں اس کے پاس موجود ہیں۔ کمیٹی کی رائے تھی کہ زری پالیسی بدستور مہنگائی وسط مدتی منظرنامے پر مبنی رہے گی ۔

مالیاتی شعبہ8۔ ​مالی سال کے دوران مالیاتی یکجائی اب تک درست راستے پر گامزن رہی ہے اور مہنگائی کے منظرنامے میں معیاری بہتری لائی ہے۔ مالی سال 20ء کی پہلی ششماہی کے دوران ٹیکس وصولی میں گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے ، غیر سودی اخراجاتِ جاریہ پر سختی سے قابو پایا گیا ہے، سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی)کے لیے وفاقی حکومت نے مالی سال 20ء کی پہلی ششماہی کے دوران 300 ارب روپے جاری کیے جو گذشتہ سال کی اسی مدت کے لیے 187 ارب روپے تھے۔

سرکاری اخراجات میں اس اضافے سے توقع ہے کہ کاروباری خصوصاً تعمیرات سے منسلک سرگرمیوں کو سہارا ملے گا۔ کمیٹی نے زری پالیسی کے نقطۂ نظر سے زور دے کر کہا کہ مارکیٹ کے احساسات کو مؤثر طور پر قابو میں رکھنے اور مہنگائی کا منظرنامہ بہتر بنانے میں بنیادی مدد مالیاتی دور اندیشی کو برقرار رکھنے سے ملے گی۔

زری پالیسی اور مہنگائی کا منظرنامہ9۔​یکم جولائی تا 17جنوری مالی سال 20ء کے دوران نجی شعبے کے قرضے میں گذشتہ برس کی اسی مدت کے 8.5 فیصد کی نسبت 2.2فیصد اضافہ ہوا ۔ یہ سست روی بڑی حد تک پست معاشی سرگرمی کی عکاسی کرتی ہے۔

تاہم اسی مدت کے دوران اسٹیٹ بینک کی برآمدی مالکاری اسکیم اور طویل مدتی مالکاری سہولت برائے برآمد کنندگان کے تحت لیے گئے قرضوں میں 20.6 فیصد اور 13.2 فیصد اضافہ ہوا، جس سے برآمدات کی حالیہ نمو کو تقویت ملی ہے۔