’گھرتا اسکول‘ بچوں کو خود اعتماد بنائیں، خود سَر نہیں

February 09, 2020

گھر اور اسکول دونوں بچّے کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تحقیق سے ثابت ہے کہ بچّوں کی کردار سازی میں ابتدائی چند برسوں کی تربیت فیصلہ کُن ثابت ہوتی ہے اور اس ضمن میں گھروں میں والدین اور مدارس میں اساتذہ کا کردار اہم گردانا جاتاہے۔گئے زمانوں میں بچّوں کی تعلیم کے ساتھ اُن کی تربیت پر بھی بہت زور دیا جاتا تھا۔بچّوں کو ادب آداب سکھائے جاتے۔ اُٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور سونے جاگنے کے اوقات، طریقے اور اصول وضع تھے، جن کی سختی سے پابندی بھی کروائی جاتی۔

بڑوں کا احترام اور ان کے سامنے دھیمی آواز میں بولنا چھوٹوں کے لیے لازم تھا۔ انہیں سمجھایا جاتا کہ اپنی رائے کا اظہارہمیشہ سلیقے سے کیا جائے۔یہ بھی بتایا جاتا کہ دوسروں کی رائے کا احترام بھی ضروری ہے۔پھر اسکول کا ماحول بھی عموماً سخت ہی ہوتا اور گھروں میں بھی کچھ باتوں پر سختی برتی جاتی۔ اس سختی کے نتیجے میں برداشت کا مادّہ پیدا ہوتا اور قدرے سخت، منظّم ماحول میں پروان چڑھنے والےبچّے، بڑے ہو کر بھی دوسروں کے لیے احترام کا رویّہ اپناتے تھے ۔چاہےکتنے ہی اونچے عُہدے پر پہنچ جاتے،مگر رکھ رکھاؤ اور ادب ملحوظِ خاطر رہتا۔

یہ حقیقت ہے کہ زمانہ بدلا ،تو ساتھ ہی تعلیم کے طریقے اور تربیت کے انداز بھی بدلتے چلے گئے۔ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر گھرانوں میں بچّوں کو ادب آداب سکھانے کا بہت کم اہتمام کیا جاتا ہے۔ انہیں کسی بات پر روکا ٹوکا نہیں جاتا۔وہ اپنی بات کہنے میں آزاد ہیں، اپنی رائے کا اظہار کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔مانا کہ بہت زیادہ روک ٹوک بچّے کی شخصیت میں خلا پیدا کردیتی ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چُرائی جاسکتیں کہ بہت زیادہ آزادی بھی بچّوں کو خود اعتماد سے زیادہ خود سَر بنا دیتی ہے۔

بچّے، گھروں میں اصولوں کی پابندی نہیں کرتے اور اسکول میں ڈسپلن کی، لہٰذا بچوں کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ضروردیں، ان سے تبادلۂ خیال کریں، ان کی صلاحیتوں اور شوق کو مہمیز دیں۔ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے میں بھی ان کا ساتھ دیں۔

یہ تمام تر اقدامات بچّے کا اپنی ذات پراعتماد بڑھاتے ہیں اور ایک پُراعتماد فرد مشکل سے مشکل فیصلہ با آسانی کرلیتا ہے، لیکن خود اعتمادی اور خود سَری میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یاد رکھیے،ہر معاملےمیں اپنی بات کو صحیح سمجھنا اور سمجھانا، اپنی رائے کو درست ماننے پر اصرار کرنا، دوسروں کے رتبے اور رشتے کا خیال نہ کرنا، درحقیقت وہ منفی رویے ہیں،جو خود کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اوردوسروں کو بھی۔

اپنے بچّوں کی جائز، ناجائز، ضروری، غیر ضروری ہر خواہش کسی نہ کسی طرح پوری کرنا، کسی کے ساتھ کیے گئے غلط رویے پر تنبیہہ نہ کرنا اور اُن کے آگے’’ نہیں ‘‘کی لکیر نہ کھینچا،درحقیقت اُنہیں خود سَر بنادیتی ہے۔بچّوں کو بااعتماد ضرور بنائیں، لیکن اسکول ہو یا گھر اساتذہ اور والدین دونوں ہی کی ذمّے داری ہے کہ انہیں کچھ اصولوں کا پابند ضرور بنائیں۔

اپنے سے عُمر، رتبے اور رشتے میں بڑوں کی عزّت اور احترام کرنے پر زور دیں۔ بلاشبہ خود اعتمادی اگر شخصیت خُوب صُورت بناتی ہے، تو خود سَری شخصیت کی خُوب صُورتی ماندکر دیتی ہے۔بچّے کتنے بھی سیانے، عقل مند، چالاک ہوجائیں، بہرحال بچّے ہی ہوتے ہیں۔ سو، انہیں صحیح، غلط کی تمیز سکھانا، بڑوں کی ذمّے داری ہے۔

والدین بسا اوقات اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ بچّے دِن میں جگنو پکڑنے کی ضد کررہے ہیں، لیکن یہی ضدّی پَن آگے چل کر کبھی والدین کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے، تو کبھی خود بچّوں کے لیے۔ بچّوں کو دِن کے وقت جگنو پکڑنے کا شوق پورا کرنے دیں،مگر ساتھ ساتھ انہیں رات کا وہ جگنو بھی بنائیں، جو اندھیرے میں راستہ دکھاتا ہے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب بچّے خود اعتماد ہوں، خود سَر نہیں۔