سندھ میں قبائلی تنازعات نے معمولات زندگی مشکل بنادیے

February 16, 2020

سندھ میں قبائلی تنازعات نے معمولات زندگی مشکل بنادیے

اندرون سندھ قبائلی تنازعات نے معمول کی زندگی مشکل بنادی، خواتین اسپتال نہیں جاسکتیں، بچے اسکول نہیں جاسکتے، اُستاد سے لے کر ڈاکٹر تک سب کا داخلہ بند ہو جاتا ہے۔

سندھ میں قبائل کے درمیان دشمنیاں اتنی زیادہ اور شدید ہیں کہ بچوں اور عورتوں کو بھی نہیں بخشا جاتا، حریف قبیلے سے تعلق رکھنے والا جو بھی سامنے آئے، مار دیا جاتا ہے۔

بظاہر ریاستی ادارے بھی فعال ہیں اور حکمران بھی فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں کے بڑے بڑے دعوے کرتے رہتے ہیں ،مگر زمینی حقائق کچھ الگ ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔

قبائلی تنازعات سندھ کے عوام کیلئے عفریت اور خون پینے والی بلا بنے ہوئے ہیں، وحشت ، بربریت اور جہالت کا ایک بارود اُگلتا اور خون اُچھالتا حصار ہے ،جس نے لوگوں کا جینا اجیرن کر رکھا ہے۔

کسی زچہ کو اسپتال لے جانا ہو، کسی بیمار کا علاج کرانا ہو، یا کسی مردے کو دفنانے کیلئے قبرستان لےجانا ہو، غیرجانبدار اور دونوں حریفوں کو قابلِ قبول افراد کو بیچ میں ڈالے بغیر کوئی کہیں نہیں جاسکتا۔

جیو نیوز کی ٹیم سے گفتگو متاثرین نے کہاکہ ’ڈیلیوری کا مسئلہ ہے کوئی بچہ بیمار ہوجائے وہ جیسے ہی جاتا ہے تو وہ راستے پر کھڑے ہیں اسے مار پیٹ کر واپس کردیتے ہیں، جو ڈیلیوری کا مسئلہ ہوتا ہے وہ بچہ بھی ضائع ہو جاتا ہے ،نہ تعلیم ہے نہ اسپتال کچھ نہیں، ہمارا جانا بس گھر سے اوطااق اور اوطاق سے گھر تک ہے‘۔

انہوں نے مزید کہاکہ ’پولیو والے جو ہیں، انہیں بھی روک دیتے ہیں نہ کوئی اسکول جاسکتا ہے نہ کوئی ڈاکٹر کے پاس، بیمار گھر پڑے تڑپتے ہیں ، ہمارا کوئی آدمی مرجائے تو وہ دوسرے آدمی لے جاکر دفن کرتے ہیں۔

متاثرین نے یہ بھی کہاکہ ’قومی جھگڑا ہے بڑی تکلیف ہے حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے ، بندہ مرجائے کوئی فریاد نہیں، باپ مرگیا توبچوں کی کیا زندگی ہے ‘۔

مدرسے اس لیے بند ہیں کیونکہ یہاں بچوں کو پڑھانے کے لیے مولوی نہیں آسکتا، اسکول نہ جانے کے سبب بچوں کا مستقبل تاریک ہوتا ہے تو ہوتا رہے، قبائلی تنازعات کو جاری رہنا چاہئے، یہ ہے وہ فرسودہ سوچ جس نے امن اور ترقی کا ہر راستہ بند کررکھا ہے۔

مشتاق شر نے بتایا کہ میں نے چھ جماعت پڑھے تھے اس کے بعد جھگڑا شروع ہوگیا پھر میں تعلیم حاصل نہیں کرسکا ، 2010 میں یہ جھگڑا شروع ہوگیا ، اسکول کھلا ہے لیکن ہم جھگڑے کی وجہ سے نہیں جاسکتے بچے اٹھا کر وہ پیسے مانگتے ہیں ہم پیسے کہاں سے لائیں ۔

قبائلی جنگ کی کوئی اخلاقیات بھی نہیں، عورتیں ہوں یا بچے جو سامنے آئے، ماردیا جاتا ہے، ابھی یہاں لولئی برادری کی چار عورتیں قتل ہوئی تھیں ، ایک بندہ جو ڈی ایس آر کے قتل میں ملوث تھا ان کا نام فریادی دے رہے تھے تو پولیس نے نام نہیں لکھا، کیوں کہ وہ بااثر ہے۔

قبائلی تنازع کی وجہ سے چھوٹے بچے ہیں اسکول بھی نہیں جاسکتے ہیں ، ابھی کچھ پہلے دس سال کا بچہ اسکول سے پیدل آرہا تھا ڈاکوئوں نے اس پر گولی چلائی اور وہ زخمی ہوگیا۔

مسلح تصادم کے باعث ان علاقوں میں اسکول کبھی مہینوں تو کبھی سالوں بند رہتے ہیں، اگر کھل بھی جائیں تو خوف سے استاد نہیں آتا۔

بعض مقامی زمین دار علاقے میں امن اور تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے بھی ہیں اور اس کے فروغ کیلئے کردار بھی ادا کر رہے ہیں لیکن حکومت کا کردار بہت مایوس کن ہے ۔

ہم نے اسکول کو چار کنال زمین دی ، میں نے پولیس چوکی بنوائی تھی ، 8 سال ہوگئے ابھی تک وہ اسکول نہیں بنا ، خسرو بختیار کو کہا دوماہ ہوگئے کچھ نہیں ہوا۔

روزگار ، تعلیم ، صحت زندگی کا کون سا ایسا شعبہ ہے، جسے قبائلی جنگ نے متاثر نہ کیا ہو ، عوام نے صوبائی حکومت سے اپیل کی ہے کہ انہیں جیل جیسی زندگی سے آزادی دِلائی جائے اور قبائلی اختلافات ختم کرائےجائیں۔