’پچاس کی دہائی میں کراچی‘ حدِ نظر تک جھونپڑیاں ہی جھونپڑیاں نظر آتی تھیں

February 27, 2020

حیات رضوی امروہوی

پچاس کی دہائی میں کراچی کے لوگوں کو ہجرت کے عذاب سے کسی حد تک نجات ملی تو نئے اداروں کی تشکیل بھی ہوئی۔ حکومت نے اعلان کیا کہ وہ لوگ جو اپنی جائدادیں ہندوستان میں چھوڑ کر آئے ہیں، ’کلیم سیٹلمنٹ‘ (CLAIM SETTLMT) کے دفاتر میں درخواست دے سکتے ہیں، اُن کے لیے کسی ایسی جائداد کا الاٹمنٹ کیا جاسکتا ہے جو مالکین کے پاکستان سے چلے جانے کے باعث خالی پڑی ہوں، کلیم سیٹلمنٹ کے دفاتر ہر شہر میں قائم کردیے گئے ہیں۔ مہاجرین آبادی کا دباؤ کراچی اور لاہور پر زیادہ تھا، لہٰذا ا ن ہی شہروں میں یہ کاروبار ترقی پرتھا۔ یقیناًایک بڑا طبقہ وہ تھا جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر اور اپنے عزیزوں کی جانیں گنوا کر، قربانیاں دے کر پاکستان تک پہنچا تھا، اُن کا جائز حق تھا کہ حکومتِ پاکستان اُن کے لیے جو آسانیاں بھی فراہم کرسکتی تھی وہ اُنہیں دی جاتیں، قائدِاعظم اور لیاقت علی خان اسی غم میں گھلے جارہے تھے کہ اتنی بڑی انسانی آبادی ہجرت کرکے اس ملک میں آبسی ہے، اب ان کے مسائل کا کیا سدِباب ہوسکتا ہے۔ کراچی ان مشکلات کا مسائلستان تھا، حدِ نظر تک جھونپڑیاں ہی جھونپڑیاں نظر آتی تھیں۔

جہاں جہاں یہ انسانی المیے پائے جاتے تھے وہاں وہاں قائدِاعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان ان آبادیوں میں جاتی تھیں اور لوگوں کی ڈھارس بندھاتی تھیں، اپنی طرف سے پانی کے ٹینکر پہنچواتی تھیں۔ انہوں نے دوسری بہت سی خواتین کو اس نیک کام میں شامل کرکے APWA یعنی ’آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن‘ کے نام سے ایک ادارہ بنا لیا تھا، جسے بعض وجوہات کی بناء پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا، لیکن اس ادارے کے توسط سے بہت سے غریبوں کو کسی حد تک سُکھ چین بھی نصیب ہوا۔ پینے کا پانی، بچیوں کے اسکول، ڈسپنسریاں اور مالی امداد کے بہت سے انتظامات ہوئے۔

گولیمار (بعد میں گلبہار) اور لالوکھیت (بعد میں لیاقت آباد) مہاجرین کی ابتدائی بستیاں تھیں۔ خود لیاقت علی خان کے صاحبزادگان لیاقت آباد سے بڑا قریبی تعلق رکھتے تھے اور اکثر اُن کا اس علاقے میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔

پیر الٰہی بخش صاحب جو سندھ کے گورنر بھی رہے، گولیمار کے کوارٹروں کی زمین اُن ہی کی تھی جو مہاجرین کو دے دی گئی ۔ اس زمین کے بدلے میں اُنہیں تین ہٹّی کے قریب دوسری زمین حاصل ہوئی تو اُنہوں نے پیرالٰہی بخش کالونی (پی،آئی، بی کالونی) کے نام سے ایک نئی بستی بسادی اور لوگوں کو سستی قیمت میں مالکانہ حقوق کے ساتھ مکان مل گئے۔ شاہد احمد دہلوی اور عمارت کار ضمیر مرزا رزقی جیسے بہت سے لوگ اسی علاقے کے رہائشی تھے، اور بہت سے سرکاری محکموں کے آفیسر یہیں کے مکین تھے۔

گولیمار کی زمین کے شمال میں مسلم لیگ کوارٹرز تعمیر کیے گئے اور یہاں بھی یہ مکانات مہاجرین کو دیے گئے، اور اسی سے ملحق زمین پر کراچی کی پہلی رہائشی آبادی کے لیے اُس وقت کے وزیرِاعظم جناب خواجہ ناظم الدین نے اسکیم کا افتتاح کیا۔ یہ زمین ناظم آباد کے نام سے منسوب ہوئی اور ڈھائی روپئے گز کے حساب سے فروخت ہوئی۔

یہ وہ زمانہ ہے جب حکومت لوگوں کو آسانیاں بہم پہنچاتی تھی اور اُن کے مسائل حل کرنا دنیا کی دوسری عمدہ حکومتوں کی طرح اپنا فرض خیال کرتی تھی۔ عزیز آباد کے 120گز کے بنے بنائے مکانات ایک نجی ٹھیکیدار نے صرف پانچ ہزار، پانچ سو روپئے فی مکان کے حساب سے مالکانہ حقوق کے ساتھ فروخت کیے، اور فیڈرل بی ایریا میں گلبرگ ہاؤسنگ کے دوسو گز کے مکانات صرف آٹھ ہزار روپےمکان کے دام فروخت ہوئے۔

’بی ایریا‘ کیا ہے، بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں۔ یہ کے ڈی اے اسکیم نمبر 16 کا ایک علاقہ ہے۔ جب KDAکا محکمہ اُن ہی دنوں (پچاس کی دہائی) وجود میں آیا تو اس نے بہت سی رہائشی اسکیمیں پلان کیں اور اسی منصوبہ بندی کے مطابق ٹیپو سلطان روڈ اور کارساز کے قریب کے ڈی اے اسکیم نمبر ون وجود میں آئی، اسی طرح کلفٹن کی اسکیم نمبر پانچ کہکشاں کہلاتی ہے۔ کراچی دارالحکومت تھا لہٰذا سرکاری ملازمین کے لیے بھی اسکیمیں پلان کی گئیں۔

اسکیم۔ 16 میں سرکاری ملازمین کے لیے دو حصے وجود میں آئے، پہلا حصہ فیڈرل بیوروکریٹک ایریا (F.B. AREA) اور دوسرا حصہ فیڈرل کیپٹل ایریا (F.C.AREA) کہلایا۔ ایف، سی، ایریا میں حکومت نے ملازمین کو فلیٹ بنا کر دیے جو حکومت کی ملکیت کے تھے، جبکہ کیپٹل ایریا کچھ دنوں تک غیر آباد رہا، یہاں تک کہ 1958ء آگیا اور ایوب خان کی حکومت نے دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد لے جانے کے احکامات صادر کردیے۔ شمالی (نارتھ) ناظم آباد اورفیڈرل بی ایریا کی اسکیمیں جناب احمد علی صاحب چیف ٹاؤن پلانر کے ڈی اے کی پلان کی ہوئی ہیں۔

کراچی میں مہاجرین کے ساتھ ساتھ دارالحکومت ہونے کی وجہ سے بنگالیوں کی بھی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی ،جنہوں نے ہر اسکیم میں مکانات بنا لیے تھے اور مستقل رہائش اختیار کرلی تھی۔ مشرقی پاکستان کے مقابلے میں مغربی پاکستان اور خصوصاً کراچی ایک بہت ترقی یافتہ شہر بنتا جارہا تھا، لہٰذا بنگالی حضرات کراچی سے اپنا مستقبل وابستہ کیے ہوئے تھے۔

لانڈھی،کورنگی اور نیوکراچی میں مہاجرین کے لیے ہاؤسنگ اسکیموں کا اعلان کیا اور سُرعت کے ساتھ کام انجام دینے کے لیے ایک ایسی شخصیت کو ذمہ دار بنایا جو واقعی انتہائی مخلص انسان تھا، میری مراد جناب گورنر اعظم خان صاحب سے ہے، جنہوں نے ان تمام ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے رات دن ایک کر ڈالا۔ نیوکراچی کی تعمیرات میں راقم الحروف نے بھی کے ڈی اے کے ایک خادم کی حیثیت سے اپنا حصہ ڈالا۔

اُس وقت کے ڈی اے کے چیف ٹاؤن پلانر جناب ظِلّ احمد نظامی صاحب تھے، جن کے دور میں کراچی کی بہت سی ہاؤسنگ اسکیمیں بنیں اور اُن پر عمل ہوا۔ باغِ کوہسار یعنی ’ہِل پارک‘ کراچی کے شہریوں کے لیے اُن ہی کی نشانی اور تحفہ ہے۔’پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی‘ یعنی PECHSکا قیام بھی اُن ہی دنوں عمل میں آیا۔ یہ بھی سرکاری ملازم تھے، ان کی حیثیت ذرا متمول قسم کی تھی، پلاٹ بھی بڑے تھے اور حکومت سے قرضے ملنے میں بھی آسانی ہوجاتی تھی، لہٰذا بہت جلدی پچاس کی دہائی کے شروع والے پانچ سال میں اس آبادی نے ترقی کے بہت سے زینے ایک ساتھ پھلانگ لیے۔