56ویں انٹرنیشنل سیکورٹی کانفرنس

February 21, 2020

تحریر:عرفان احمد خان۔۔۔فرینکفرٹ
ورلڈ اکنامک فورم کے انعقاد کے دو ہفتے بعد میونخ میں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل سیکورٹی کانفرنس کی اہمیت ہے۔ امسال 14-15-16فروری کو منعقد ہونے والی یہ 56ویںکانفرنس تھی۔ اس کا آغاز 1963ء میں ہوا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد روس کے اثرات کو کم کرنے کے لئے نیٹو ممالک ہی اس کانفرنس میں شریک ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ اس کی شہرت بڑھنے لگی تو جرمن حکومت نے اس کے لئے مستقل ادارہ قائم کردیا جس کے روح روان امریکہ میں بحیثیت سفیر کام کرنے والے دو جرمن ڈپلومیٹ ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد اس نے عالمی فورم کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ جہاں گفت و شنید کے علاوہ مقررین خوب دل کی بھڑاس بھی نکال لیتے ہیں۔ جیسا کہ دو سال قبل اسرائیل کے وزیراعظم نے ایران کے خلاف اور اس بار امریکی حکومت کے رویہ کے خلاف فرانس کے صدر نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ امسال 35حکومتوں کے سربراہان ایک سو سے زائد ممالک کے وزرائے خارجہ و وزرائے دفاع اور 500کے قریب اہم فیصلوں میں کردار ادا کرنے والی دنیا کی اہم شخصیات جن میں زیادہ تر تھینک ٹینک Think Tankسے وابستہ لوگ شامل تھے اس میںشریک ہوئے۔ دنیا بھر سے دو ہزار صحافی اس کانفرنس کی رواداد سے لوگوںکوباخبر رکھنے کے لئے کام کررہے تھے۔ 14فروری کو دوپہر دو بجے جرمن صدر نے کانفرنس کا افتتاح کیا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ کو امریکہ کی طرف سے ختم کئے جانے پر تنقید کی۔انہوںنے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یکطرفہ فیصلے اجتماعی فیصلوں پر اثرانداز ہورہے ہیں۔ اس سے امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کو دھچکہ لگتا ہے اور فضا میں جنگ کے اثرات محسوس ہوتے ہیں۔ جرمن صدر کے افتتاحی خطاب کے وقت امریکی حکومت کا کوئی کارندہ تو موجود نہ تھا البتہ سابق وزیرخارجہ جان کیری اور ہائوس کی چیئرمین Nancy Pelosiایوان میں موجود تھے۔ البتہ ہفتہ کے روز جب فرانس کے صدر کانفرنس سے مخاطب ہوئے تو امریکہ کے وزیرخارجہ اور وزیردفاع دونوں ہال میں موجود تھے۔ فرانس کے صدر نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ ہم نے ہمیشہ کے لئے امریکہ کی پیروی نہیں کرنا۔ ہمیں یورپین انداز میں سوچنا اور فیصلے کرنے ہیں۔ ہم نے اپنے شہریوں کی حفاظت کے لئے پالیسیاں بنانی ہیں۔ ہم نیٹو کے پارٹنر رہیں گے۔ یورپ کی کامن سیکورٹی پالیسی کے دو ستون ہیں۔ ایک نیٹو اور دوسرا یورپ کا Selfڈیفنس سسٹم۔ ہمارے Selfڈیفنس سسٹم کو ٹرانرانٹلاٹک پالیسی پر برتری حاصل رہے گی۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے کے بعد فرانس اکیلا نیوکلیئر اسلحہ رکھنے والا یورپی ملک ہے۔ نیوکلیئر اسلحہ پالیسی بنانے کے لئے فرانس پہلے ہی جرمنی کو دعوت دے چکا ہے۔ جرمن وزیردفاع نے اپنی باری آنے پر فرانس کے صدر کے ساتھ اتفاق کیا اور کہا کہ ہماری یعنی جرمنی اور فرانس کی دلچسپی ضروری اور پالیسی ایک ہے۔ حفاظت اور امن کے نام پر اکھٹے ہونے والے ایک دوسرے کو دھمکاتے رہے۔ ایسی ہی صورت حال ایران کے حوالے سے دو گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں نظر آئی۔ یہ کانفرنس کا طویل ترین اجلاس تھا۔ پینل گفتگو میں ایران، سعودی عرب، ترکی، قطر، کویت، اومان کے وزیرخارجہ کے علاوہ امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹ ممبر کرسٹوفر مرفی بھی شامل تھے۔ بی بی سی کی معروف براڈ کاسٹر نظامت کررہی تھیں۔ بات کا آغاز ایرانی وزیرخارجہ محمد جاوید ظریف کی گفتگو سے اور افتتاح سعودی پرنس فیصل بن فرحان آل سعود نے کیا۔ جواد ظریف نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کے ساتھ ناروا رویہ ہونے کی وجہ ان کا سیکورٹی کا مشیر John Boltonتھا۔ اس نے امریکی صدر کو یقین دہانی کروائی تھی کہ پابندیوں کی وجہ سے ایران جلد فیل اسٹیٹ میں بدلنے والا ہے اور ٹرمپ ایک فیل اسٹیٹ سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ایران کے معاملے میں امریکہ پہلے بھی غلطی پر تھا اور آج بھی غلطی پر ہے۔ امریکہ سات اطراف سے ہمیں دبائو میں رکھنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ وہ پابندیاں اٹھالے تو ہم مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار ہیں۔ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ مڈل ایسٹ، مشرق وسطیٰ کے مسائل یا تنازعات بیرونی مداخلت کے بغیر حل ہونے چاہیں اور یہ حل ہوسکتے ہیں لیکن امریکہ کی موجودگی میں کوئی تنازعہ حل نہیں ہو گا کیونکہ امریکہ حفاظت کے نام پر سیکورٹی فروخت کرتا ہے اس کی آمد کا بہت بڑا فائدہ ان تنازعات کے قائم رہنے میں ہے اور یہ بات ہمارے سعودی پارٹنر کو سمجھ نہیں آرہی۔ ڈیموکریٹ سینیٹر نے رائے دی کہ سعودی عرب کا سب کچھ امریکی صدر ڈونلڈ کے ہاتھ میں ہے جس کی پالیسی یہی ہے کہ ہر تنازعہ میں مل کرکے دنیا کو دکھائوں۔ سعودی وزیرخارجہ نے بہت کم گفتگو میں حصہ لیا اور آخر میں یہ فقرہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ایران ہمارے لئے قابل اعتبار ملک نہیں ہے۔ امریکہ کے وزیرخارجہ Mike Pampeoنے 16منٹ کی تقریر میں ایران اور یورپی ممالک تعلقات پر تنقید کے ساتھ ساتھ چین پر بھی طنزیہ فقرے دورا کو یورپ کو نصحیت کی کہ چین کبھی یورپ کے لئے خطرہ ثابت ہوگا۔ امریکی وزیرخارجہ نے اپنی تقریر میں سات بار ایران کا نام لیا جبکہ امریکی وزیردفاع نے ہر بار ایران کا نام لینے کی بجائے Rogue Stateکا لفظ استعمال کیا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل کی رائے تھی کہ یورپ اور trans-antalnticکا ایک ساتھ چلنا نہایت ضروری ہے۔ دونوں کی سوچ میں ہم آہنگی سے بہت سے تنازعات حدود میں رہیں گے۔ دنیا کے 81ممالک نے مل کر داعش کی خلافت کو شکست دی۔ ہم ایسے خطرات کا مقابلہ مل کر کرنا ہے۔ روس اور چین سیکورٹی کانفرنس میں اپنے مبصر تو بھیج دیئے ہیں لیکن میں نے ان مبصرین کو کسی بھی اجلاس یا پینل گفتگو میں دلچسپی لیتے نہیں دیکھا۔ البتہ اس بار چین کے وزیرخارجہ Wang Yiنے امریکن وزیرخارجہ کی تقریر کے جواب میں کہا کہ چین میں رائج سسٹم مغربی دنیا سے مختلف ہے۔ لیکن وہاں کے عوام کی حمایت سے جو بھی سسٹم رائج ہے اس سسٹم کی توقیر کی جانی چاہئے۔ چین کی اقتصادی ترقی کو دنیا نے سراہا۔ وہ ترقی رائج الوقت سسٹم کی بدولت ہے۔ میں سب سوالوں پر Reaکرنا نہیں چاہتا لیکن ہم کسی کے لئے خطرہ نہیں اور کسی کے خلاف بغض نہیں رکھتے۔ ہم امریکہ کی ترقی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ GDPکے لحاظ سے چین امریکہ سے بہت پیچھے ہے۔ اس لئے امریکہ چین کے لئے قابل تقلید ہے۔ چین کے وزیرخارجہ کی طرف سے کی جانے والی مختصر تقریر کو حاضرین نے خوب سراہا اور ہال میں دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ جرمن وزیرخارجہ کی تقریر بھی بہت اہم تھی اور ایک آدمی جس کی عالمی تناظر پر نظر ہے۔ اس کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھی۔ ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا کہ برلن میں لیبیا امن کانفرنس میں 16ممالک نے قرارداد پر دستخط کئے تھے کہ لیبیا میں کسی قسم کا اسلحہ سپلائی نہیں کیا جائے گا۔ جرمن وزیرخارجہ نے اپنی اہم تقریر میں بتایا کہ اس قرارداد پر کوئی عمل نہیں کررہا۔ یورپین سٹلائٹ نے جو بحری جہاز دیکھے ہیں ان کی تفصیل یورپی یونین وزرائے خارجہ اجلاس میںدکھائی جائے گی۔ یورپی یونین کی ڈپٹی نمائندہ نے بتایا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زمینی، ہوائی اور سمندری راستوں سے لیبیا میں خانہ جنگی میں شامل قوتوں کو اسلحہ کی سپلائی جاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لیبیا امن کانفرنس کے 55نکاتی فیصلے کی تصدیق سیکورٹی کونسل بھی کرچکی ہے۔ کانفرنس کے دوران آئی آئی ایس International Institute for Strategic Studiesکی رپورٹ بھی مہیا تھی جس میں اسلحہ تیار کرنے اور خریدنے والے ممالک کی تفاصیل درج تھی۔ جس سے باخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیکورٹی رسک کم کرنے کی خاطر کانفرنسز منعقد کرنے والے اسلحہ فروخت کرنے کے لئے کس قدر نئی مارکیٹیں تلاش کرنے میں ملوث ہیں، ان کے دفاعی بجٹوں کا بھی یہی حال ہے امریکہ اور چین نے 2019 میں دفاعی بجٹ میں 6،6 فیصد اضافہ کیا ہے، امریکہ کی طرف سے دفاعی بجٹ میں 4،53 بلین ڈالر کا اضافہ کیا گیا جبکہ برطانیہ کا کل دفاعی بجٹ 8،58 بلین ڈالر ہے، جن خطوں میں لڑائی جارہی ہے یا سول وار نے ملک کا امن تباہ کردیا ہے وہاں اسلحہ کی خرید 275 بلین ڈالر سے بڑھ کر 423 بلین ڈالر تک جاپہنچی ہے، ایک اور ادارے ایس، آئی ،پی آر، آئی،(Stockholm International Peace Research Instituteی موجودہ رپورٹ کے مطابق چین کے چار اسلحہ ساز گروپوں نے 1،54 بلین ڈالر کا اسلحہ ایک سال میں فروخت کیا، چین اس وقت اسلحہ بنانے میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے جبکہ 2017 میں 6ویں نمبر پر تھا Save the shiduleنامی ادارہ ہے کی رپورٹ بھی کانفرنس کے شرکا کے لئے باعث توجہ تھی، سینٹرل ایفریقہ میں 2012 سے سول وارجاری ہے جس میں 95 ہزار بچے ہلاک ہوچکے ہیں، ملین بچے ایسے ہیں جن کو تعلیم نہیں دی جاسکی۔ متاثرین افراد کی تعداد 170 بلین ہے سینٹرل افریقین پبلک کےدارالحکومت Bangaiپر 2013 میں مسلح گروپ نے قبضہ کرلیا تھا۔ سوڈان میں 20 لاکھ پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ہیں، ہر کیناناسو، نائجر اور Chadمیں 42 ملین لوگ بے گھر ہیں، افریقہ کے متاثرین کی طرف مغرب نے کسی توجہ نہیں دی، نارقنکہ وار زون کے لوگوں نے یورپ کا رخ ہی کرلیا۔ ورلڈ بینک نے افریقہ کے متاثرین کے لئے آئندہ تین سال میں 53 بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا لیکن رقم کے استعمال پر ورلڈ بینک کا ہولڈ ہوگیا۔ کیونکہ یہ ممالک کرپشن اور عدم منیجمنٹ کا شکار ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ افریقہ کے لئے خصوصی سیشن کے انعقادمیں مقبولیت کا دعوت نامہ سب افریقی سربراہان کو بھجوایا گیا تھا۔ لیکن وہاں سے کسی ایک بھی سربراہ حکومت نے آنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اتوار کو ایک سیشن سوشل میڈیا کے نقصٓنات کے حوالے سے بھی تھا۔ 2020 انتخابات پر اثر انداز ہونے وای طاقتیں اور دوسرے عوامل کے حوالے سے کوفی متان فائونڈیشن کی تیار کردہ رپورٹ میں سیکورتی کانفرنس میں پیش ہوئی، سوشل میڈیا سے جمہوریت کو کس قسم کے خطرات درپیش رہے اور آئندہ بھی ہوں گے۔ سائوتھ ایشیائی ممالک میں سوشل میڈیا انتخابات پر کس طرح اثر انداز ہوا یہ سب رپورٹ کا حصہ تھا۔ یوں تو افغانستان کے صدر عبدالغنی بھی کانفرنس میں شریک تھے، جمعہ کے روز کانفرنس کے آغاز سے قبل انہوں نے پریس کو یہ خبر بھی دی کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن کا معاہدہ ہوگیا ہے جس کا اعلان چند روز میں کردیا جائے گا ان کا زور ہی بتانے پر تھا کہ اس بار طالبان امریکہ اور افغانستان کے علاوہ کوئی چوتھا ملک اس معاہدہ کو کروانے میں حصہ دار ہیں۔ کانفرنس کے دوران محسوس ہوا کہ دنیا کو اب طالبان اور کشمیر سے دلچسپی نہیں رہی، سیکورٹی کانفرنس میں دنیا کا ہر تنازعہ کا ذکر کسی نہ کسی رنگ میں آتا رہا لیکن جہاں گزشتہ 4 ماہ سے آگ لگی ہوئی ہے پوری وادی کشمیر کرفیو کی نذر ہے، اس کو زیر بحث لانے پر شاید کوئی تیار نہ تھا، بھارت کے وزیر خارجہ کانفرنس میںموجود بھی تھے لیکن افغان صدر کی طرح ان کی مصروفیت بھی ملتے جلتے تک محدود تھیں۔ اس کانفرنس میں ہر سال تنازعات پر گفتگو تو کی جاتی ہے لیکن حل کرنے کے اقدامات اٹھانے میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ 48 گھنٹے تک سب اپنی اپنی ہانک کر گھر کی راہ لیتے ہیں اس فورم کا کسی جنگ کو رکوانے یا تنازعہ کے حل میں ابھی تک کوئی کردار سامنے نہیں آیا۔