لیبر پارٹی … مستقبل کےچوراہے پر …؟فکر فردا …راجہ اکبردادخان

February 28, 2020

برطانیہ میں حالیہ انتخابات میں لیبر پارٹی کی شکست اور اس کے قائد جیرمی کوربن ایم پی کے استعفٰے کے بعد نئے پارٹی لیڈر کا انتخابی عمل جاری ہے،14؍اپریل کو نئے پارٹی لیڈر اور ڈپٹی لیڈر کے ناموں کا اعلان کردیا جائے گا، لیبر پارٹی کی قیادت کے چنائو کیلئے ایک جمہوری اور دشوار پراسس موجود ہے، جس کے ذریعہ قائدین کو ٹاپ پر پہنچنے کیلئے کئی مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اس کیلئے جماعت کے مختلف حصوں مثلاً ٹریڈیونینز، ملک بھر میں موجود حلقہ ہائے انتخاب سے تائید ایم پیز کے اپنے انتخاب ایسوسی ایٹ تنظیموں اور بالاخر ممبر شپ سے اکثریت اپنے لئے حاصل کرنے میں کامیاب ہونا ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہ مقابلہ سات ایم پی امیدواروں سے شروع ہوا، اور بالآخر چار پرتم ہو رہا ہے، اس الیکشن میں ہر مرحلہ پرخواتین امیدواروں کی تعداد زیادہ رہی۔تین الیکشن متواتر ہارنے کے بعد لیبر پارٹی نے مستقبل کیلئے کس طرح کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے جلد اقتدار حاصل کرنا ہے اس کا فیصلہ اس لیڈر شپ الیکشن میں ہونا ہے۔بدلتے معاشی اور معاشرتی حالات میں آج کل برطانوی میڈیا میں خوب بحث چل رہی ہے کہ سرکیئر سٹارمر ایم پی اور ربیکالانگ بیلی ایم پی میں سے کون بہتر قائد ہوسکتا ہے، جو اس پارٹی کو جلد اقتدار میں لے آئے؟۔اگرچہ جماعت کے اندر سینٹر لیف کا بڑا حصہ بزنس اور میڈیا کے فیورٹ کیئر ٹارمر کا حامی ہے۔ ان کی قریب ترین حریف لانگ بیلی ایم پی بھی ایک مضبوط امیدوار ہیں، ربیکا لانگ بیلی اپنے بائیں بازو کے خیالات سے اتنی مضبوطی سے جڑی ہوئی ہیں کہ ان کی سوچ کے مطابق وہ کسی ٹوری کی دوست نہیں بن سکتیں اور نہ ہی کوئی صرف سوٹ پہن کر انتخاب جیت سکتا ہے، برطانوی اخبار THE TIMES میں شائع رپورٹ میں کالم نگار RACHEL SYLVESTERلیبر حوا لےسے یہ کہتی ہیں کہ صرف ٹوریز سے نفرت کرکے انتخابات نہیں جیتے جاسکتے بلکہ ایسا ہونے کیلئے نئی قیادت کو کئی چیلنجز کے باوجود پارٹی کے تمام حصوں کو اکٹھا کرکے اپنے مقصد کی طرف بڑھنا ہوگا۔ موجود صورتحال پرسابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کا یہ کہنا کہ لیبر کو احتجاجی گروپ کی ذہنیت سے نکل کر اپنی ان CORE VALUES کی طرف لوٹ جانا چاہئے جن کی وجہ سے ان کی قیادت میں پارٹی نے تین لگاتار الیکشن جیتے، ماضی کے ان لیبر حامیوں کو واپس لانا نہایت اہم ہے جو اس دفعہ ٹوریز کے ساتھ چلے گئے ہیں۔وزیراعظم بورس جانسن بھی انہیں ’’ادھارے حمائیتی‘‘ سمجھتے ہیں، یہ ووٹر لیبر اثاثہ ہیں، ان کی تسلی کیلئے موثر ضرب اختلاف فراہم کی جائے تاکہ پانچ سا ل سے اختتام سے قبل یہ لوگ پھر سے ہمارے ساتھ جڑ جائیں۔گزشتہ برطانوی انتخابات میں بھی پاکستان بھارت تقسیم کے رنگ ابھرے، پرائم منسٹر موودی کے دو حالیہ برطانوی دوروں کے دوران INDIAN DIASPHORA کو اس طرح منظم کیا گیا کہ یہاں آباد یہ کمیونٹی بھارت سپورٹنگ طاقت کے طور پربرطانوی حکومت کے سامنے آئی اور اس طاقت کا اظہار ویمبلے سٹریم بھر کر ہوا۔حالیہ انتخابات میں کامیاب ہونیوالوں کی ایک معصول تعداد بھارتی ہیریٹیج سے جڑی ہوئی ہے، موجودہ کابینہ میں چار اہم وزارتوں کے انتچارج بھارتی ہیریٹیج سے تعلق رکھتے ہیں، پاکستان نژاد سابق چانسلر ساجد جاوید استعفٰے دے کرگھر چلے گئے ہیں، لیبر لیڈر شپ دوڑ میں تمام اہم شخصیات درمیانہ سائز پوسٹروں کے ذریعہ بھی پارٹی ممبران تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں، بیلٹ پیپر اس ہفتہ کے اختتام تک ممبران کے دیئے گئے ایڈرسیز پر پہنچ جائیں گے، ڈپٹی لیڈر شپ کیلئے انجیلا رینر ایم پی اخبارات اور ٹی وی چینلز کی توجہ لئے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان کی پالیسیز زیادہ زیر بحث نہیں وہ اپ پنی مشکلات سے نمٹنے کی صلاحیتوں کو اپنے اس مشن میں ایک اہم فیکٹر سمجھتی ہیں اور اپنی کامیابی کیلئے پرامید ہیں۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ جس طرح کی نظریاتی تقسیم جماعت کے اندر دیکھنے کو مل رہی ہے اور جہاں نئی پارٹی لیڈر شپ کیلئے پرانے اہم عہدیداروں سے کام لینا مشکل نظر آرہا ہے ایسے تمام حقائق مزید واضح کرتے ہیں کہ پارٹی کیلئے اگلا انتخاب جیتنا کتنا مشکل ہوگا، ٹوری پارٹی کی پارلیمینٹ میں اکثریت اپنی جگہ مگر حکومت کو بھی کئی کڑے امتحانوں سے گزرنا پڑ رہا ہے، ’’بریکسٹ‘‘ پربات چیت کو31؍دسمبر 2021ء تک مکمل ہوجانا چاہئے، نادرن آئرلینڈ اور جنوبی آئرلینڈ کے درمیان اشیاء کی آمدورفت کو کس طرح ریگولیٹ کرنا ہے۔ سکاٹ لینڈ کے ریفرینڈم مسئلہ سے کس طرح نمٹنا ہے وہ بڑے ایشوز ہیں جو اس حکومت کے سامنے کھڑے ہیں۔برطانوی تجارتی سیکٹر بھی زیادہ تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہا، کم تنخواہ پانے والوں میں بھاری تعداد اپنے بھائی، بہنوں کی بھی ہے، اور اکثر معاشی جائزے زیادہ اچھی خبریں نہیں سنا رہے۔بی بی سی بھی پانچ سو نوکریاں ختم کر رہا ہے، نئی لیبر لیڈر شپ ٹیم کیلئے حکومت پرکڑی تنقید کیلئے موزوں حالات بھی موجود ہیں اور وقت کی ضرورت بھی ہے کہ معاشی ناانصافیوں کو کم کرنے کیلئے پارلیمینٹ کے اندر اور باہر آوازیں بلند کی جائیں، متوقع لیڈر کیئرسٹارم ایم پی نپی تلی گفتگو کے ماہر مانے جاتے ہیں۔متوقع ڈپٹی لیڈر بھی اچھی پرفارمر ہیں، ایک مضبوط اور اہل لیبر فرنٹ بنچ بھی ملکی سیاست کیلئے اتنا ہی اہم ہے جتنی کہ حکومت، دونوں کی چپقلش سے عوامی بہتریاں ابھرتی ہیں، اللہ ایسے عوام دوست نظام کو طاقت بخشے۔