کشت و خوں ۔ آخر کب تک

March 07, 2020

1947، 1984اور اب 2020… وہ زہر ہے جو جنونیت اختیار کرتا ہے تو نہ دین دیکھتا ہے نہ دنیا، نہ مذہب، نہ رنگ، نہ نسل، نہ ایمان اور نہ عورت مرد، سنا ہے کہ جانور بھی اپنی نسل پر حملہ نہیں کرتے ہیں۔ یہ ایک اکیلا انسان ہے جسے اشرف المخلوقات کا لقب دیا گیا کہ حمل والی عورتوں کے پیٹ چاک کرکے، بچے اٹھا کر پھینک دیتے ہیں۔ کہتے رہیں علامہ اقبال کہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا مگر یہ جنونی بدقماش لوگ جنہیں گھروں میں تہذیب نہیں سکھائی گئی۔ کبھی سنا تھا کہ مسجدوں کے میناروں پہ شیو کا بت رکھ دیا جائے گا۔ کبھی سنا تھا کہ مغرب میں پڑھے ہوئے بچے، اپنے ہی اسکول کے ساتھیوں کو بھون کے رکھ دیں۔ ابھی تک ہم نازیوں اور ہٹلر کے مظالم کو یاد کرتے ہیں ناول لکھے گئے، فلمیں بنیں، پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ گرجوں کو دہشت گردی سے بھسم کیا گیا تو مسلمانوں اور سکھوں نے اپنے عبادت خانے مظلوم لوگوں کے لئے کھول دئیے۔ لندن میں جب چوک میں کھڑے ہو کر مسلمان نماز پڑھ رہے تھے، ہر مذہب کے مرد اور عورت، ان کے تحفظ کے لئے کھڑے تھے۔

گزشتہ دس برسوں میں مہاجرت کے المناک واقعات دیکھے ہیں۔ کشتیوں میں بیٹھ کر دوسرے ملک جانے کی کوشش میں، لوگوں کے بوجھ سے کشتی ہی ڈوب گئی۔ کنٹینر میں بھر کر جانے والے لوگ دم گھٹنے سے مر گئے۔ لاکھوں شامی اور یمنی تیر کے دوسرے ملک جانے کی کوشش میں مع بال بچوں کے ساحل پہ آکے ڈوب گئے۔ افریقہ میں لوگوں کے جھونپڑوں کو آگ لگائی جاتی رہی مگر یہ انڈیا کے موجودہ حکمرانوں کو ظلم اور بربریت کرتے ہوئے، خوشی محسوس ہوتی ہے۔ انڈیا میں اتنے ہی مسلمان ہیں جتنے پاکستان میں ہیں۔ انڈیا کے حکمران، اپنے باپ دادا کے ملک میں رہنے والوں کو کس بنا پر ذلیل کر رہے ہیں۔ ان کو میں یاد کرائوں کہ تحریک پاکستان تو یو پی، سی پی، علی گڑھ اور میرٹھ میں زور شور سے شروع ہوئی تھی۔ ویسے یاد کریں بنگال میں بھی تحریک پاکستان، نوجوانوں نے آگے بڑھائی تھی۔ لوگ اپنا گھر بار اور زمینیں چھوڑ کر، قائداعظم کے بلاوے پر بیل گاڑیوں اور پیدل چل کر آئے تھے۔ اسی طرح سکھ اور ہندو اپنے ہمسایوں کو چابیاں دے کر گئے تھے کہ یہ قتل و غارت ختم ہو تو ہم لوٹ آئیں گے۔ یہ بھی پرانی کہانی ہے کہ نہ وہ لوٹ کر آئے اور جنہیں ضامن بنایا تھا وہ راتوں رات امیر ہو گئے تھے مگر یہ دونوں طرف ہوا تھا۔ گزشتہ 35برس سے میں ہندوستان کے چپے چپے میں گئی۔ لوگوں نے کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور منٹو کے ذریعہ پنجاب کے اس علاقے کو یاد رکھا جہاں باغوں میں لوگ بیٹھ کر گپ لگاتے تھے۔ خوشونت سنگھ کی کتاب Train to Pakistanنے ہم دونوں ملکوں کے شیطانوں کے پردے چاک کئے۔ دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا۔ ادب میں وہ سارے سانحات موجود ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کیسے ختم ہوئی، روس کیسے کئی حصوں میں بٹ گیا۔ ہندوستان میں جتنے پڑھے لکھے ہندو ادیب، صحافی اور سوشل ایکٹوسٹ ہیں، بار بار حکومت سے منتیں کرچکے ہیں کہ کشمیر سے کرفیو اٹھائو۔ شہریت کے قانون کو یکساں بنائو مگر بی جےپی اور ہند توا نے ہر شہر اور گائوں میں یہ نعرہ بلند کردیا کہ انڈیا تو ہمارا ملک ہے۔ چین میں بھی اویغور مسلمانوں کو محبوس کیا جارہا ہے۔ یوں تو اسپین میں کتلانا والے الگ ہونا چاہتے ہیں۔ آئرلینڈ، اسکاٹ لینڈ بھی اپنی الگ شناخت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اپنی زبان کے استعمال پر زور دے رہے ہیں۔ کینیڈا میں کیوبک والے علیحدگی چاہتے ہیں مگر کوئی ملک وحشی حرکتیں نہیں کررہا ہے۔ بات چلی تھی بابری مسجد گرانے سے اور یاد ہوگا کہ آپ کو سینئر سیاست دانوں نے رتھ یاترا کی تھی۔ بس وہ دن اور آج کا دن، معصوم بچوں کو بھڑکایا جا رہا ہے۔ ساری دنیا دیکھ بھی رہی ہے اور اس پہ لعنت بھی بھیج رہی ہے۔ کیا دنیا کا ضمیر چھ ماہ سے لگے کشمیر پہ بول نہیں سکتا۔ اقوامِ عالم منہ میں گڑ لئے بیٹھی ہیں۔ ہم لوگوں نے آج سے 30برس پہلے، پاک انڈیا دوستی فورم بنایا تھا۔ وہ ہزاروں لوگ جو اس جشن میں شامل ہوتے تھے، بھائی چارے کی بات کرتے تھے۔ کلکتہ سے لے کر الہ آباد تک ہر شہر کے شرفا نے اپنے گھروں میں لوگوں کو ٹھہرایا۔ اسی طرح پشاور سے لے کر لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں رت جگے ہوئے۔ یہ کیسی تیلی لگی ہے کہ محبتوں اور رفاقتوں کے سارے دامن چاک ہوگئے ہیں۔

ہم آخر کب تک دونوں طرف بلا کسی سبب کے لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ ہمارے وزیر اعظم نے تو کئی بار کہا ہے، جنگ، کبھی بھی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے صحافیوں اور ادیبوں نے بار بار التماس کیا کہ ان جھگڑوں کے باعث، دونوں ملکوں میں غربت اور جہالت بڑھ رہی ہے۔ بنگلہ دیش ہم دونوں ملکوں سے آگے نکل گیا ہے۔ سری لنکا میں کتنے سال جنگ جاری رہی۔ دانش مندوں نے فیصلہ کیا اور آج سری لنکا بھی آگے جارہا ہے۔ مالدیپ، بھوٹان، سکم اور نیپال والے بھی اپنے مسائل حل کررہے ہیں۔ ہم دونوں ملکوں کے بچے مل کر تھیٹر کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے ادیب اور مصور اور گائیک، بنیادی طور پر امن پسند ہیں۔ ہماری دوائیاں، دونوں ملکوں کی جڑی بوٹیاں ملا کر بنتی ہیں۔ پاکستان کا لاہوری نمک کی سارے ہندوستان میں مانگ ہے۔ آج جب ہم بیان کرتے ہیں کہ دریائے راوی تو ساندہ کے پاس سے گزرتا تھا۔ اب وہ دریا ہی نہیں رہا، باریک پانی کی لکیر رہ گئی ہے۔ بیاس کا پورا دریا انڈیا کو دے دیا۔ سندھو دریا جو سب سے بڑا تھا۔ آج جب سکھر اور حیدرآباد میں پلہ مچھلی تلاش کرنے جائو تو دریا کی خشک زمین پوچھتی ہے ’’اب کیا لینے آئے ہو‘‘۔