وہ، وہ نہیں تھے تو پھر کون تھے...؟

March 22, 2020

آج سے کوئی ڈیڑھ سال قبل ہمارے محلّے میں دو منزلہ مکان کی بالائی منزل پر ایک ضعیف العمر اپنی جواں سال غیر شادی شدہ بیٹی کے ساتھ رہایش پذیر تھے۔ مجھے ان کا نام تک معلوم نہیں تھا۔ عموماً وہ اپنے کام سے کام رکھتے۔ کسی سے غیر ضروری میل جول نہیں رکھتے تھے۔ پُروقار چہرہ، چھوٹی سفید داڑھی تھی، سرپر ایک خُوب صُورت ٹوپی پہنے رہتے۔ انہیںسفید کُرتے پاجامے کے علاوہ کبھی کسی دوسرے رنگ کے لباس میں نہیں دیکھا۔ گرمی ہو یا سردی، اُن کی وضع قطع ہمیشہ ایک ہی رہتی۔ اکثر میرا اور اُن کا آمنا سامنا ہوتا، تو سلام دُعا کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہوتی، وہ مسکراہٹ کے ساتھ ملتے اور آگے بڑھ جاتے۔

ایک دن میںحسبِ معمول صبح آفس کےلیے گھر سے نکلا، تو اُن کے مکان کے سامنے سڑک پر ٹینٹ لگا دیکھا۔ مجھے چوں کہ آفس جانے کی جلدی تھی، اس لیے یہ سوچ کر چلا گیا کہ واپسی پر معلوم کرلوں گا۔ شام کو جب آفس سے گھر آیا، تو ٹینٹ میں کچھ لوگ بیٹھے سیپارے پڑھنے میں مشغول تھے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ شاید کسی کا انتقال ہوا ہے۔ وہاں موجود ایک شخص سے دریافت کیا، تو اُس نے بتایا کہ سامنے والے مکان کی اوپر کی منزل پر جو ضعیف العمر مقیم تھے، اُن کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ سن کر مجھے بہت افسوس ہوا، پڑوسی ہونے کے ناتے کچھ دیر وہاں بیٹھا، تو معلوم ہوا کہ مرحوم کو دوسرے دن ظہر کی نماز کے بعد سپرد خاک کیا جائے گا۔ بعدازاں میں آفس کی ناگزیر مصروفیات کی وجہ سے ان کی تدفین میں شریک نہ ہوسکا۔ جس کا بے حد افسوس رہا۔ ان کے انتقال کے ڈیڑھ دو مہینے بعد کی بات ہے، ایک روز میںگھر کی طرف جارہا تھا کہ قبرستان جانے والے راستے سے ایک صاحب، آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے آتے دکھائی دیئے، جب وہ قریب آئے، تو ان کی وضع قطع دیکھ کرمیں ششدر رہ گیا کہ یہ تو میرےوہی پڑوسی تھے، جو ڈیڑھ دو ماہ قبل انتقال کرگئے تھے۔

وہ نپے تلے قدم اٹھاتے بے خودی کے عالم میں چل رہے تھے، مزید قریب آئے، تو انہیں اور غور سے دیکھا، اتنی شباہت پر مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ شاید میری نظروں کا دھوکا ہے۔ مَیں مزید غور اور تجسّس سے انہیں دیکھنے لگا، لیکن وہ بے خودی کے عالم میں میرے سامنے سے گزرتے اپنے گھر کی طرف جانے والی سڑک پر مڑگئے۔ اس طرح اچانک انہیںدیکھ کر میرے پورے جسم میںخوف کی ایک لہر دوڑ گئی، لیکن میں نے اس واقعے کا کچھ خاص اثر لیا، نہ ہی محلّے میں کسی سے اس کا تذکرہ کیا۔ تاہم، یہ ایک ایسا معمّا ضرور تھا، جو میری سمجھ سے بالا تر تھا۔ پھر خیال آیا کہ ہوسکتا ہے مرحوم کا کوئی بھائی ہو، عموماً دو بھائیوں کی شکلیں بھی تو ایک جیسی ہوتی ہیں۔ بہرحال، میرا تجسّس بڑھ گیا تھا۔

مَیں نے مزید معلومات حاصل کیں، تو پتا چلا کہ مرحوم کا کوئی دوسرا بھائی نہیں تھا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی بھی مکان چھوڑ کر اپنے کسی قریبی عزیز کے یہاں منتقل ہوگئی تھی۔ اس واقعے کے چند روز بعد میں مغرب کے وقت اسی سڑک سے گزر رہا تھا کہ وہ صاحب ایک بار پھر اسی انداز میں خراماں خراماں چلتے نظر آئے۔ جب میرے قریب سے گزرے، تو واضح طور پر ان کی آنکھیں انگاروں کی مانند سُرخ دکھائی دیں، حیرت انگیز طور پر ان کا سینہ کسی دھونکنی کی طرح چل رہا تھا، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ بہرحال، اس بار بھی وہ میرے سامنے سے گزرگئے، لیکن میں حیران و ششدر بس ٹکٹکی باندھے انہیں جاتا دیکھتا رہا، خوف کے باعث مجھے اپنا ہوش ہی نہیں تھا۔ خیر، چند روز گزرنے کے بعد ایک روز مسجد سے مغرب کی نماز پڑھ کر گھر آرہا تھا کہ جوں ہی قبرستان والی سڑک پر پہنچا، تو حیرت انگیز طور پر وہ بزرگ ایک بار پھر میری نظروں کے سامنے آگئے۔ تیسری بار بھی اسی انداز سے انہیں اس طرح گزرتے دیکھ کر میںبُری طرح خوف و دہشت میں مبتلا ہوگیا اور سوچنے لگا کہ الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔

ایک مرحوم شخص کو اُس کی مکمل وضع قطع کے ساتھ تین مرتبہ دیکھ چکا ہوں۔ بہرکیف، روحانیت کا علم رکھنے والے اپنے ایک قریبی عزیز سے اس بات کا ذکر کیا، تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ کا مرحوم کے ساتھ کوئی لین دین تو نہیں تھا؟‘‘ مَیں نے نفی میںسر ہلاتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے تو آج تک مرحوم کا نام تک نہیں معلوم، رقم کا لین دین کیسے کرتا۔‘‘ تو انہوں نے تسلّی دیتے ہوئے مجھے ہدایت کی کہ سفید لٹّھے کا کپڑا لے کر کسی مستحق شخص کودے دیں۔ مَیں نے فوراً بازار سے کپڑا خریدا اور ایک ضرورت مند کو دے دیا۔ جس کے بعد وہ مرحوم مجھے پھر کبھی نظر نہیں آئے۔ آج بھی اس واقعے کو یاد کرتا ہوں، تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مَیں نے اپنے طورپر بھی اس گُتھی کو سلجھانے کی کوشش کی اور محلّے کے چند افراد سے بھی بعدازمرگ، بزرگ کو دیکھے جانے کی بابت پوچھا، لیکن سب ہی نے انکار کیا، سب کا جواب نفی میں تھا۔ مگر میں آج بھی سوچتا ہوں کہ مرحوم کا صرف میرے سامنے تین مرتبہ آنے کا کیا مطلب تھا؟ یقیناً اس کے متعلق اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ تاہم، میں آج بھی مرحوم کی مغفرت کے لیے دُعا ضرور کرتا ہوں۔ (طاہر صدیقی، گلشنِ شمیم، فیڈرل بی ایریا،کراچی)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔