تیل کے نرخ پر روس اور سعودیہ عرب میں تنازع

March 19, 2020

گذشتہ ہفتے ویانا میں ہونے والی اوپیک کی میٹنگ میں جاری صورت حال اور کرونا وائرس کے مارکیٹ پر پڑنے والے منفی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہونے والےاجلاس میں طے کیا گیا کہ خام تیل کی قیمت پچاس ڈالر فی بیرل یا کچھ زائد مقرر کی جائے اور تیل کی پیداوار میں کمی کردی جائے مگر روس نے اوپیک کے دونوں فیصلوں کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس پر سعودی عرب نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اس اختلاف رائے میں سعودی عرب نے تیل کی قیمت میں کمی اور پیداوار میں اضافہ کا اعلان کرکے اوپیک ممالک امکان کو ششدر کردیا۔سعودی عرب کے اعلان کے بعد مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت تینتیس ڈالر فی بیرل تک آگئی جو پہلے ساٹھ ڈالر فی بیرل تھی ۔

2014میں امریکی شیل آئل کی پیداوار میں اضافہ کی وجہ سے تیل کی قیمت میں کمی ہوگئی تھی ۔ 2016میں روس اور سعودی عرب نے معاہدہ کیا کہ، اوپیک ممالک تیل کی قیمتیں مقرر کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ 2020میں اوپیک ممالک نے تیل کی پیداوار میں کمی کردی ،جس کی وجہ کرونا وائرس تھا اور مارکیٹ شدید مندی کا شکار ہورہی تھی ۔ سعودی عرب نے مارچ میں تیل کی قیمت میں فی بیرل چھ تا آٹھ ڈالر کم کردیئے ساتھ ہی تیل کی پیداوار میں بھی تبدیلی کردی ۔ روس اور سعودی عرب تیل پیدا کرنے ولے بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہیں ان کا بجٹ تیل کی آمدنی پر انحصار کرتا ہے۔اس کشیدگی کے باعث روس کے وزیر خزانہ نے کہا،سعودی جو بھی قیمت مقرر کرے اور تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے ،مگر روس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔انہوں نے مزیدکہا کہ روس خام تیل کی قیمت میں کمی کرکے پندرہ سے بیس ڈالر فی بیرل بھی فروخت کرسکتا ہے، ایسے میں اوپیک ممالک کے لئے بڑی پریشانی کھڑی ہوجائے گی ۔ روس کی ماہر معاشیات صوفیہ ڈانٹے نے ایک بیان میں کہا کہ، روس کے پاس دنیا کے سب سے بڑے تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر ہیں ،اس کے علاوہ روس نے اپنے سالانہ بجٹ میں کمی کرکے پانچ سوپچاس ارب ڈالر محفوظ سرمائے کے طور پر رکھے ہیں، اس لئے وہ تیل کی پچیس تا تیس فی بیرل آئندہ دس سال تک فروخت کرسکتا ہے اور قیمت میں کمی کے خسارے کو اپنے محفوظ سرمایہ سے پورا کرسکتا ہے۔

دوسری طرف سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ وہ تیل کی پیداوار میں تیرہ ملین بیرل روزانہ تک کا اضافہ کررہا ہے۔ اس اعلان کا مقصد روس کوتنگ کرنا ہے۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ روس اور سعودی عرب کی اس’’ آئل وار‘‘ کی وجہ سے امریکا کو پریشانی ضرور ہے، مگر امریکن آئل کمپنی اس صورت حال کا مقابلہ کرلے گی، کیونکہ یہ خوددنیا کا دوسرا بڑاتیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ امریکی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس نے غلط انداز ے قائم کئے ہیں وہ امریکہ کو کوئی زک نہیں پہنچا سکتا۔

مگر یورپی ماہرین دوسرے انداز سے صورت حال کودیکھ رہے ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں اضافہ کرکے یورپ میں سیلاب کی صورت حال پیدا کردی ہے، مگر روس کے پاس سب سے زیادہ تیل ہے اور وہ مقابلہ کرسکتا ہے۔بلو مبرگ کے اندازوں اور تخمینوں کے مطابق روس کے پاس تیل اور گیس کے بڑے ذخائر کے ساتھ ساتھ بڑا اور جدید انفرا اسٹرکچر ہے۔ ریلوے بڑی بڑی طویل پائپ لائنیں ہیں، ماہرین موجود ہیں وہ تیل فراہم کرسکتا ہے اور مزید قیمت کم کرسکتا ہے۔جبکہ چین اپنی ملکی ضروریات کے لئے ستر فیصد سے زائد تیل امپورٹ کرتا ہے جس میں زیادہ تیل سعودی عرب سے آتا ہے۔ چین کو روس اور سعودی عرب کی آئل وار سے خاصا فائدہ حاصل ہورہا ہے۔ خیال ہے کہ چین کے صنعتی سیکٹر کو اس سے دوتاتین فیصد زائد منافع حاصل ہوگا ۔ چین خود ہرسال سوارب بیرل خام تیل پیدا کرتا ہے، البتہ چین کی تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں کواس آئل وار سے پریشانی لاحق ہے کیونکہ تیل کی قیمت کم ہونے کا ان پربھی اثرپڑرہا ہے، پھر وہ کمپنیاں جوتیل کی تلاش کے لئے سرمایہ کاری کررہی ہیں انہیں بھی گھاٹے کاخدشہ ہے کہ سرمایہ کاری محفوظ رہے گی یاڈوب جائے گی۔

اسی طرح سعودی عرب میں تیل کی کمپنیوں کے ماہرین نے جاری صورت حال پراپنی شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ، تیس ڈالر فی بیرل قیمت کی وجہ سے تیل تلاش کرنے والی کمپنیوں کو نقصان کا خدشہ ہے۔ ان کمپنیوں نےسرمایہ کاری سے فی الفور ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ مارکیٹ میں مندی کا رحجان بھی پریشان کن ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اختتام ہفتہ مارکیٹ کھلنے پرتیل کی قیمت میں تیس فیصد تک کمی نے حیران کردیا ہے اور قیمتوں کی سطح1987کے برابر آگئی ہیں۔ بھارت سے آنے والی خبروں میں بتایا جارہا ہے کہ بھارت دنیا کا سب سے بڑا تیسرا امپورٹر ہے اورتیل پر سالانہ 112ارب ڈالر خرچ کرتا ہے ،اس کو کچھ فائدہ کی امید ہے مگر تیل کی قیمت کم ہونے سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔

تاہم جاری آئل وار کی وجہ سے روس صدر پیوٹن کو تھوڑی سی پریشانی ہوسکتی ہے کہ انہوں نے آئین میں ترمیم کرکے صدر رہنے کی خواہش ظاہر کی ہے اس حواے سے انہوں نے عوام سے کچھ وعدہ بھی کئے ہیں، جس کے لئے وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ دیکھنا ہوگاسچ یہ ہے کہ اس نوعیت کے فیصلے نہ صرف فیصلہ کرنے والوں کے لئے بلکہ اطراف میں بھی بڑے مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔