آزادیٔ صحافت اور جمہوریت کا تسلسل

March 22, 2020

کچھ دنوں پہلے میر شکیل الرحمٰن کی نیب کی جیل سے سرکاری طور پر جاری کردہ تصویر نے دراصل یہ اعلان ببانگ دہل کر دیا کہ جنگ جیسا معتدل مزاج میڈیا گروپ بھی حکومت کو قابل قبول نہیں ہے۔اس سے پہلے ڈان اخبار کے خلاف بھی ایک باقاعدہ مہم کا آغاز کیا گیا اور جنگ کے خلاف کارروائی بھی آزادی صحافت کو کچلنے کے اسی عمل کا ایک تسلسل ہے۔نہ صرف یہ کہ میر صاحب کو ایک چونتیس سالہ پرانی پراپرٹی ڈیل میں گرفتار کیا گیا بلکہ اس کے ساتھ ہی جیو کو ٹیلی وژن سے غائب کر دیا گیا۔ساتھ ہی جنگ کے سرکاری اشتہارات بند کر دیے گئے بلکہ پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی اشتہار دینے سے روکا جا رہا ہے جس سے حکومت کی بوکھلاہٹ صاف ظاہر ہوتی ہے۔پہلے ہی خراب معاشی حالات کی وجہ سے صحافیوں اور میڈیا کے حالات نا ساز گار ہیں،کئی ہزار صحافی بے روزگار ہوچکے ہیں اور اب نئے دبائو کی وجہ سے مزید برطرفیوں کے امکانات ہیں۔نہ تو صحافیوں کی تنخواہوں کا باقاعدہ اجرا ہو رہاہے اور اگر حکومت نے اپنی موجودہ آمرانہ روش نہ بدلی تو نہ صرف آزادیٔ صحافت کا گلا گھٹ جائے گا بلکہ جمہوریت ارتقاپذیر ہونے کی بجائے زوال پذیری کی طرف بڑھے گی کیونکہ جمہوری اداروں کا اصل احتسا ب ایک آزاد صحافت ہی کر سکتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ احتساب جمہوری سیاسی عمل کا حصہ ہوتا ہے ۔لیکن اس عمل کو عام شہری کی نظر میں پذیرائی اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب کوئی خاص وعام اس کی زد سے نہ بچ سکے۔پی ٹی آئی نے جس طرح نیب کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا ہے اس نے نیب کی حیثیت کو عام لوگوں کے سامنے بالکل مذاق بنا دیا ہے اور ڈیڑھ سال سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود کسی بھی کیس میں کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جا سکا اور لگتا یوں ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنی معاشی اورگورننس کی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے احتساب احتساب کے دبنگ نعروں کے ذریعے اپنا دورِ اقتدار گزارنا چاہتی ہے۔ آج عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن تو کسی سرکاری حکومتی عہدے پر نہیں رہے تو انہیں کس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ہے؟ یاد رہے کہ یورپ میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے اور صحافت کے دوسرے اداروں کے ساتھ مثبت روابط کو ریاست کی ترقی کے لئے ضروری خیال کیا جاتا ہے۔آج ہم یورپی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تودیکھتے ہیں کہ جن قوتوں نے یورپ کو پسماندگی سے نکالا اس میں صحافت کا بہت اہم کردار ہے۔ انہوں نے معاشرے کے جمود کو توڑنے میں مدد کی۔ یورپ میں بدعنوانی کے خلاف جن دو اداروں نے اہم کردار ادا کیا اورجس سے جمہوریت مستحکم ہوئی ، اس میں عدلیہ اور میڈیا سر فہرست ہیں۔لیکن ہمارے حکمرانوں نے شروع دن سے یہ کوشش کی کہ نئی ریاست نو آبادیاتی حکومت کی صحیح اور مکمل جانشین ثابت ہو۔ سونے پہ سہاگہ کہ پاکستانی ریاست نے خود کو نظریاتی ریاست بھی قرار دیا جس کی آڑ میں پوری کوشش کی گئی کہ معلومات یا انفارمیشن پر اس کی اجارہ داری قائم رہے۔ اس کی ابتدا اس پریس ایڈوائس سے ہوئی جو حکومت نے قائد اعظم محمد علی جناح ، گورنر جنرل آف پاکستان کی 11اگست 1947ء والی تقریر کے سلسلے میں جاری کرتے ہوئے اس کی اشاعت پر پابندی لگائی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے ابتدا ہی سے کس قدر طاقت ور اور موثر تھے ۔پاکستان کے حکمرانوں نے ریاست ، قومی استحکام اور ملک کے عوام کی ترقی میں ذرائع ابلاغ کے کلیدی کردار کو کبھی دل سے تسلیم کیا ہی نہیں اور پوری کوشش کی کہ عوام کو سچ کے ابلاغ سے محفوظ رکھا جا سکے۔کسی بھی معاشرے میں جمہوری عمل کو سماجی ترقی سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔اس کے ساتھ باقی عوامل کا بھی ایک خاص نہج تک پہنچنا ضروری ہے۔سماج میں موجود جب تک ساری قوتیں جمہوری عمل کے استحکام کیلئے مسلسل کام نہ کریں تو سماج میں جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ سکتے ۔اس لیے پاکستان میں جمہوریت کی آبیاری کیلئے ضروری ہے کہ پاکستا ن میں صحافت کا ادارہ نہ صرف آزاد ہو بلکہ حکمرانوں کو بار بار آئینہ دکھانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ ایک ارتقاپذیر سماج میں دراصل یہی ایک احتساب کا عمل کہلاتا ہے۔ عمران خان کے چاہنے والے ان سے امید لگائے بیٹھے تھے کہ جو انقلابی تبدیلیاں وہ کرکٹ کے میدان میں لائے تھے ویسی ہی انقلابی تبدیلیاں وہ پاکستانی معاشرے میں بھی لائیں گے تاکہ یہ معاشرہ مدینہ کی ریاست میں تبدیل ہو جائے ۔ انہوں نے کرکٹ کے میدان میں نہ صرف نیوٹرل امپائر زکا تصور دیا بلکہ دنیا بھر میں اس تصور کو منوا بھی لیا لیکن جب انہیں موقع ملا کہ وہ پاکستانی سماج میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ایک نیوٹرل نیب کا ادارہ قائم کرتے ، انہوں نے اس کے بالکل برعکس کیا ۔

میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری نے نہ صرف جنگ گروپ کو بلکہ پاکستان میں موجود آزاد منش رکھنے والے ہر شخص کو یہ پیغام دیا ہے کہ انہیں کسی بھی نامعلوم عمل کی سزا دی جا سکتی ہے ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ایف یو جے اور دوسرے صحافتی ادارے ،سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی ، کسانوں، مزدوروں، عورتوں اور دوسرے مظلوم طبقات کی تنظیموں سے مل کر ایک منظم تحریک کا آغاز کریں ورنہ ایک ایک کر کے سب میڈیا گروپس کو سر جھکانے پر مجبور کر دیاجائےگا جس سے نہ صرف صحافت کوبہت نقصان ہوگا بلکہ پاکستان اکیسویں صدی میں ایک ناکام ریاست کے طور پر جانا جائے گا۔آج صحافی حضرات کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات سے جوڑ کر ملک میں جمہوریت ، انسانی برابری ، رواداری اور انصاف پر مبنی نظام کے فروغ کیلئے خلوص دل سے جدوجہد کریں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس کے لیے اخبار کے مالکان،میڈیا مالکان، آزادیِ صحافت کی ٹریڈ یونینوں اور صحافی حضرات کو مل کر اس جبر کے خلاف قربانیاں دینا ہوں گی جس طرح یورپی سماج میں صحافیوںاور دانشوروں نے بادشاہوں اور کلیسا کے مقابلے میں لڑتے ہوئے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ انہی قربانیوں کا ذکر فیضؔ صاحب نے کیا خوب کیا ہے

ہاں جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجیے

ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کے جاتی ہے