کورونا وائرس اور حکومت پنجاب

March 22, 2020

اُردو میں وبا سے مراد ہم ایسی بیماری کو لیتے ہیں جس میں مرض ایک مریض سے دوسرے میں پھیلتا ہے اور متعدی بیماری کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اپنے بڑوں سے سننے کو ملا کہ پہلے لوگ ہیضہ سے بہت زیادہ متاثر ہوتے اور گائوں کے گائوں ہیضہ کا شکار ہو جایا کرتے تھے۔ عموماً سننے میں آتا تھا کہ فلاں علاقے میں بہت سے لوگ ہیضہ کی وبا کا شکار ہوکر دار فانی سے کوچ کر گئے اور اس وبا پر قابو پانا کوئی اتنا آسان نہ لیکن اب شاذ ونادر ہی یہ سننے میں آتا ہے کہ کوئی مریض ہیضے کا شکار ہوا اور اس کا علاج ممکن نہ ہو سکا۔ اسی طرح ٹی بی ایک ایسا موذی مرض تھا جس کا علاج شروع میں ممکن نہ تھا اور ٹی بی کی وبا جب لوگوں میں پھیلتی تو جان لیوا ثابت ہوتی۔ ٹی بی کا مرض ایک سے دوسرے میں منتقل ہونے کے قوی امکانات ہوتے تھے اور اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یہ وبائی بیماری نوع انسانی کیلئے ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئی لیکن آج کے دور میں ٹی بی کی بیماری قابلِ علاج ہے بلکہ اس کو انسانی صحت کے حوالے سے تشویشناک بیماری کی فہرست میں بہت نیچے پائیں گے۔ کورونا وائرس وبائی مرض کے حوالے سےایک بڑے چیلنج کے طور پر پوری دُنیا کے منظر نامہ پر چین کے شہر ووہان سے نمودار ہوا اور اس وقت پوری دنیا میں خوف اور دہشت کے پنجے گاڑ چکا ہے۔ بدقسمتی سے جن ممالک میں کورونا وائرس کے حوالے سے سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں اُن میں پاکستان کے دو ہمسایہ ممالک چین اور ایران سرفہرست ہیں اور کورونا وائرس نے ان ممالک میں بہت بھیانک تباہی مچائی ہے گو کہ چین میں اب اس وبا پر قابو پانے کے حوالے سے کافی اچھی خبریں آئی ہیں لیکن خطرہ اب بھی موجود ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کی موجودگی کا انکشاف سب سے پہلے کراچی میں ہوا اور اب اس سے متاثرہ افراد ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں جس سے ہمارے معاشرے میں سراسیمگی پھیل گئی ہے اور اس بےچینی سے نمٹنے کیلئے حکومت پاکستان بالخصوص حکومت پنجاب نے فوری اقدامات کیے ہیں جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنا ہیلی کاپٹر محکمہ صحت کے حوالے کر دیا ہے، قیدیوں کی سزائوں میں دو ماہ کمی کا اعلان کیا ہے، سوشل میڈیا پر احتیاطی تدابیر کے حوالے سے زبردست حکمت عملی اختیار کی گئی ہے، پورے پنجاب میں آئیسولیشن سنٹرز قائم کیے جا چکے ہیں، گو وسائل کی کمی کی وجہ سے اب بھی ان میں بہتری کی گنجائش موجود ہے لیکن عزم اور نیت پہ شک کرنا وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی انتھک کاوشوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہوگا۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں اور ایسے تمام اداروں جہاں پر کورونا وائرس سے بچائو مقصود ہے، کو فی الفور بند کر دیا گیا ہے اور حفاظتی تدابیر کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی کے سلسلے میں پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری نے لاہور میں چیئرنگ کراس میں شہریوں میں حفاظتی ماسک تقسیم کیے اور لوگوں کو عملی قدم اٹھا کر پیغام دیا کہ حکومت اپنے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ پنجاب حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے کابینہ کی خصوصی کمیٹی قائم کر چکی ہے جس کی سربراہی وزیراعلیٰ بزدار خود کر رہے ہیں۔

لاہور میں کورونا وائرس کا پہلا مریض 54سال کا پاکستانی شہری رپورٹ ہوا جو دس مارچ کو برطانیہ سے واپس آیا تھا۔ کچھ غیر ذمہ دار عناصر نے یہ خبر پھیلائی تھی کہ متعلقہ مریض کا انتقال ہو گیا جو سراسر جھوٹ پر مبنی خبر تھی۔ بعد ازاں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس کی سختی سے تردید کی۔ ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے خالی نہیں جو اپنی ذہنی عیاشی کیلئے کسی کا بھی ذہنی سکون چھین لینے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اس بڑے بحران پر قابو صرف حکومتی کوششوں سے نہیں پایا جا سکتا بلکہ ہمیں اس کا بہادری سے نہ صرف مقابلہ کرنا چاہئے بلکہ ایک ذمہ دار شہری کے طور پر ایسی کالی بھیڑوں کا محاسبہ بھی کرنا چاہئے جو اپنے غیر ذمہ دار رویوں سے ملک میں بےچینی کا بحران پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ افواہوں اور غلط خبروں کے سدباب اور مقابلے کیلئے حکومت پنجاب نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ’’پنجاب دی آواز‘‘ کے نام سے ایک چینل قائم کیا ہے جہاں پر کورونا وائرس کے حوالے سے مستند اور حقائق پر مبنی خبریں شیئر کی جائیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا اس وقت کورونا وائرس کا بری طرح سے شکار ہو چکی ہے اور دنیا کی معیشت کو ایسا دھچکا شاید ہی کبھی لگا ہو لیکن حکومت پاکستان جو اس وبا پر گہری نظر رکھے ہوئی تھی، نے فوری طور پر قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس بلایا اور تمام حکومتی اداروں کے درمیان باہمی تعاون اور کورونا وائرس کے چیلنجز سے نمٹنے کے حوالے سے حکمت عملی تیار کی۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ گھبرانا نہیں، مقابلہ کرنا ہے گو کہ حکومت کے پاس وہ وسائل نہیں لیکن عزم اور مربوط حکمت عملی سے اس آفت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اپنی پوری حکومتی مشینری کے ساتھ اس وبا سے لڑ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے ان کی کاوشوں کا اپنی تقریر میں اعتراف بھی کیا ہے۔ گو کہ تفتان بارڈر پر اب بھی بہت کچھ کرنے کی گنجائش موجود ہے لیکن قیاس آرائیاں اور بےچینی پھیلانے والوں کو اپنے اور اپنی قوم کے اخلاقی رویے کے معیار کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں بتایا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی اس بحران سے نمٹنے کے لئے 24 گھنٹے کام کرے گی اور ذخیرہ اندوز اور تمام سماج دشمن عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہمارا معاشرہ عملاً کسی بُرے بحران سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں لیکن میں یہ بھی یاد دلاتا چلوں کہ دہشت گردی کے جس عفریت سے یہ معاشرہ لڑا ہے اُس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ کئی آئے اور کئی گئے اس قوم کو ڈرانے کیلئے لیکن پتلی گلی سے ایسے فرار ہوئے اب جہاں پر جائیں گے وہاں ہاتھ کھول کر کورونا وائرس ان کا استقبال کرے گا۔ صفائی کے اعلیٰ معیار کو قائم کرنا اس بحران کے بعد اور بھی اہم ہو گیا ہے، ہمیں اپنی زندگی میں صفائی کی اہمیت پر عملی اقدام کرنا ہوں گے کیونکہ ہاتھ دھونا اور اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا کورونا وائرس سے بچائو کی فرنٹ لائن ہے۔ ہمیں کورونا سے ڈرنا نہیں بلکہ اپنی عادات کو بدلنا ہے۔ خود بھی صاف رہنا ہے اور معاشرے کو بھی صاف کرنا ہے۔ صاف ستھرا پاکستان کورونا سے پاک پاکستان کا پیش خیمہ ہوگا۔ اس حوالے سے ہمیں ہادی دو جہاں رحمۃ للعالمین رسول کریم ﷺکی اس حدیث مبارکہ کو اپنا نصب اولین بنانا ہوگا کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔