ڈوبتی بھارتی معیشت اور آرٹیکل 370 کا نفاذ

April 05, 2020

تحریر:محمد علی خان مترجم: سید حیات عزیز نقوی
سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت جموں وکشمیر کو آزاد کرانے کیلئے حملہ کرنے والی تھی۔ میرے خیال میں ایسا نہیں تھا، پھر کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل 50 سال کی طویل خوابیدگی کے بعد کشمیر کا مسئلہ حل کرانے والی تھی؟ کیا بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کی سرحدوں میں راتوں رات کوئی ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی تھی، جس سے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے بھارتی خواب چکنا چور ہونے کا خدشہ تھا؟ پھر آخر کیا ہوا تھا کہ یہ جانتے ہوئے کہ اس آرٹیکل کی تنسیخ سے وادی کے 200ملین سے زیادہ عوام کے علاوہ اس کی دوسری بہت سی ریاستوں آسام،ناگالینڈ، میزورام وغیرہ کے عوام کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جائے گا، آخر ایسی کیا جلدی تھی کہ بھارتی حکومت نے راتوں رات پوری دنیا کو سرپر اٹھا لیا۔ جیمز کاروائل کے بل کلنٹن کی صدارتی مہم کے دوران مشہور زمانہ نعرہ ’’یہ جنم جلی معیشت ہی تو ہے‘‘ فی الوقت جیمز کاروائل کے اس نعرے سے زیادہ کوئی بات بھارت پر صادق نہیں آتی، اس وقت جبکہ مالیاتی معاملات سے تعلق رکھنے والے اور دیگر حلقے مودی کی جانب سے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے حوالے سے سازشی تھیوریز تلاش کررہے ہیں، میں بھارتی معیشت کو مودی کی حالیہ کارروائی سے ملاتا ہوں، مودی نے یہ قدم بغیر خوب سوچے سمجھے نہیں اٹھایا، یہ بہت سوچا سمجھا قدم تھا لیکن اس کے اسباب کیا تھے۔ شایدآپ انھیں سوچ نہ سکیں، اس کارروائی کا مقصد ایک مسئلے کو زندہ رکھ کر اگلے چار سال کو بھی محفوظ بنانا تھا، کیونکہ یہ مسئلہ پوری ہندوتوا بریگیڈ کو باوجود اس کے کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوگا، ایک صفحہ پر متحد رکھے گا۔ یاد رکھئے کہ حب الوطنی خاص طور پر یہ حب الوطنی مذہبی جذبات اور کسی کے خلاف، جس کا آپ کے مذہب سے تعلق نہ ہو، نفرت سے بھری ہوئی ہو تو میز پر کھانے کی موجودگی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ مودی نے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مسلم دشمن جذبات اور فکر کو سپورٹ کر کے کامیابی حاصل کی۔ یہ حقیقت ہے کہ آر ایس ایس اور ہندو توا بریگیڈ آنکھ بند کرکے اس کی تقلید کرتی ہے۔ اس کے پیروکاروں کی بڑی تعداد دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے، دیہی علاقے کے لوگ شہری علاقوں کے لوگوں کی طرح معیشت اور معاشی معاملات کو نہیں سمجھتے۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ان میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہو یا کاشتکاری کی اقدار کے ساتھ ان کے قدیم بندھن اور سادگی کی وجہ سے ایسا ہو۔ خواہ کچھ بھی ہو، مودی نے لوگوں کی توجہ ڈوبتی معیشت سے ہٹانے کیلئے ایک چھکا مارا۔ آئیے میرے اس دعوے کا تجزیہ کریں، اس کا آغاز مودی کی جانب سے بھارتی کرنسی منسوخ کرنے کے اقدام سے ہوا، میں نے مودی کی جانب سے کرنسی نوٹ منسوخ کرنے کے فیصلے کے تین دن بعد ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا، جس میں، میں نے لکھا تھا کہ اس اقدام سے نہ صرف یہ کہ بھارت کا بینکنگ سیکٹر ختم ہو کر رہ جائے گا بلکہ چند سال کے اندر ہر شعبے میں اقتصادی دہشت اور افراتفری پیدا ہوجائے گی اور آج بھارت کے ہر شعبے میں یہ افراتفری موجود ہے۔ ائر انڈیا کو 7600 کروڑ روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ جیٹ ائرویز بند ہوگئی ہے، جس سے ہزاروں افراد بیروزگار ہوگئے ہیں، کنگ فشرائرلائنز بند ہوگئی ہے اور اس پر بینکوں کے واجب الادا ہزاروں کروڑ کے قرضے پھنس گئے ہیں۔ بھارت کی سرکاری ٹیلی کام سروس بھارت سنچار نگم لمیٹڈ سنگین مالی بحران کاشکار ہے۔ 2015 میں 10ہزار کروڑ روپے منافع کمانے والی یہ کمپنی گزشتہ سال 13 ہزار کروڑ روپے کی مقروض ہوچکی تھی اور ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے اس نے بھارتی حکومت سے ڈھائی ہزار کروڑ روپےقرض کی درخواست کی تھی تاکہ کمپنی کیلئے اگلے چار ماہ تک کاروبار جاری رکھنا ممکن ہوسکے۔ اس کا خاتمہ یقینی نظر آرہا ہے، جس سے ایک لاکھ 76 ہزار سے زیادہ ملازمین بیروزگار ہوجائیں گے، اس کے پاس رقم ختم ہوچکی ہے اور اب دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈکے پاس رقم ختم ہوچکی ہے، اس نے آخری کوشش کے طورپر اپنے شیئرز انتہائی کم قیمت پر ملازمین کو فروخت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکی، اس نے اپنے 66 لاکھ 87 ہزار 772 شیئرز ملازمین کو دینے کی پیشکش کی تھی لیکن ملازمین نے صرف 20 فیصد شیئرز خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ادارے پر ملازمین کا اعتماد بھی نہیں رہا، اس کی بندش سے ادارے کے 30 ہزار سے زیادہ ملازمین بیروزگار ہوجائیں گے۔ بھارت کی ایک مایہ ناز کمپنی ویڈیو کون انڈسٹریز 2014 تک ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی اور 2014کے اوائل میں اس کا اوسط منافع 800 کروڑ تھا لیکن 2016 میں اس کو 1,367 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ یہ ادارہ بینکوں کا 90 ہزار کروڑ روپے کا مقروض ہوگیا ہے اور اس نے بینکوں کو بتا دیا ہے کہ وہ قرض ادا نہیں کرسکتی، خیال کیجئے کہ صرف ایک کمپنی بینکوں کی 90 ہزار کروڑ کی ڈیفالٹر ہے تو پھر ان بینکوں کا کیا عالم ہوگا، اس کے نتیجے میں وہ بھی دیوالیہ ہوجائیں گے اور یہ کرنسی کی منسوخی کا نتیجہ ہوگا۔ ٹاٹا ڈوکومو کئی بلین ڈالر کے نقصان کی ایک اور کہانی ہے، جس کے بارے میں آپ نے نہیں سنا ہوگا، اس کا گیم بھی ختم ہوچکا ہے اور کئی بلین ڈالر کی مقروض ہو کر یہ کمپنی ختم ہوچکی ہے۔ کیفے کافی ڈے، جو روزانہ بھارت میں مختلف مقامات پر واقع اپنی ایک ہزار 722 دکانوں سے روزانہ 1.8 بلین کپ کافی فروخت کرتی تھی اور جس کے ملازمین کی تعداد 19,943 تھی،یہ بھی اپنے بانی کی خودکشی کے بعد بند ہوچکی ہے، اس پر قرض کا ایک پہاڑ ہے، جو اب واپس نہیں کیا جاسکے گا۔ آٹو انڈسٹری کی حالت دگرگوں ہوچکی ہے۔ ماروتی موٹرز نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی پیداوار بند کر رہا ہے، کیونکہ اس کی 55 کروڑ روپے مالیت کی گاڑیاں فروخت نہیں ہو رہی ہیں اور اس کے ڈیلرز کے پاس کھڑی ہیں، بھارت کی صرف آٹو انڈسٹری سے وابستہ 4 لاکھ 65 ہزار ملازمین بیروزگار ہوچکے ہیں، صرف گزشتہ سہ ماہی کے دوران فروخت میں 31 فیصد کمی ہوئی ہے۔ دنیا میں آٹو انڈسٹری کے ایسے اعدادوشمار سننے میں نہیں آتے۔ جی ایس ٹی کی شرح 18سے 28 فیصد ہوچکی ہے، جس نے چند مہینوں کے اندر انڈسٹری کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے جی ایس ٹی کی شرح میں اتنا زیادہ اضافہ اس لئے ضروری تھا کہ بھاری ٹیکسوں کے بغیر بھارت کی معیشت اگلے چند سال تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گی۔ 28 فیصد جی ایس ٹی کی وجہ سے میٹریل کی قیمت میں اضافے نے ہی تعمیراتی صنعت کو تباہ کیا، اس کے ساتھ اس صنعت کے ساتھ مزید 176صنعتیں بھی تباہ ہوگئیں، جن میں اسٹیل، سیمنٹ اور ٹرانسپورٹیشن کی صنعت شامل ہے، اس سے مجموعی جی ڈی پی کو 13 فیصد کا نقصان پہنچا، ہمیں صرف 2019 کے دوران 2.61 ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی میں کم وبیش 500 بلین ڈالر کی کمی نظر آرہی ہے، جو ہر گرتی ہوئی انڈسٹری کی عکاسی کرتی ہے، کارپوریٹ سیکٹر حکومت اور بینکوں کا تین سو اکیانوے بلین ڈالر کا مقروض ہے۔ کارپوریشنز ہر ہفتے دیوالیہ ہورہی ہیں۔ بیروزگاری کی شرح گزشتہ پینتالیس سال کی اونچی ترین شرح پر ہے، حکومت کی زیر ملکیت کارپوریشنز کی حالت دگرگوں ہے، معاشی سرگرمیاں تیزی سے رو بہ زوال ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تباہی آرہی ہے، مودی کی جانب سے تباہ کاری سے متعلق ان خبروں کے پیش نظر کوئی ایسا مسئلہ پیدا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، جو لوگوں کو ہندوتوا کی حب الوطنی کا اسیر بنائے رکھے اور جے شری رام کے نعرے لگاتے رہیں، 2019 میں جب معیشت تباہ ہو رہی تھی مودی کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود یہ ہٹلر کی جانب سے پولینڈ پر حملہ کرنے کے فیصلے سے زیادہ بہتر فیصلہ نہیں تھا۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہٹلر کے اس فیصلے کا کیا نتیجہ نکلا اور اب ہم مودی سرکار کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے اس بظاہر بہت ذہانت سے کئے گئے فیصلے کا حشر بھی دیکھیں گے، بہرحال ایک چائے والا پیالی ہی میں طوفان اٹھا سکتا ہے، کپ اس کا اپنا ہے اور چائے ابل کر اوپر سے چھلک رہی ہے۔