کورونا:مزید احتیاط ضروری

April 07, 2020

ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں 70ہزار سے زائد انسانی جانیں کورونا وائرس کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور اندیشہ یہ ہے کہ یہ تعداد کروڑوں تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ سپین، جرمنی اور ایران میں اس عالمی وبا کی یلغار میں کسی قدر کمی حوصلہ افزا ہے مگر اٹلی، امریکہ، برطانیہ اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جانا ایک انتہائی تشویشناک امر ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی قوم کو متنبہ کیا ہے کہ اگلا ہفتہ اس کے لئے سخت ترین ہوگا۔ امریکہ اگر اموات کو دو لاکھ تک روک لیتا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہوگی، پاکستان میں لاک ڈائون کے باعث اگرچہ وائرس پھیلنے کی رفتار کچھ کم ہوئی ہے مگر اس پر قابو پانے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مزید کتنا وقت لگے گا۔ یہ فیصلہ کرنا 14اپریل کے بعد ممکن ہو گا کہ لاک ڈائون کی پابندیاں نرم کی جائیں یا مزید سخت۔ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے مطابق 35ہزار 8سو 75متاثرین کے ٹیسٹ ہو چکے ہیں جن میں سے 3277میں مرض کی تصدیق ہوئی۔ اب تک 50سے زائد اموت ہو چکی ہیں جبکہ 257مریض صحتیاب ہوئے۔ زیادہ تر مریضوں کا تعلق بیرونی دنیا سے آنے یا ان سے ملنے والوں کا ہے۔ تاہم مقامی طور پر بھی کافی تعداد میں لوگ اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں۔ لاک ڈائون کی وجہ سے صنعتی و تجارتی اداروں کے لاکھوں ملازمین اور دیہاڑی دار مزدور بےروزگار ہو گئے جن کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے تاحال انہیں حکومت کی طرف سے کوئی نقد مالی امداد نہیں ملی۔ راشن کی تقسیم کا بھی انتظام موثر نہیں ہے اور لوگ قطاروں میں کھڑے مزید بیماری پھیلانے کا موجب بن سکتے ہیں۔ تاہم اعلان ہوا ہے کہ احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت مستحقین میں 144ارب روپے کی ادائیگی 8اپریل سے شروع ہو گی تاکہ وہ ضروریات زندگی خرید سکیں۔ اس صورتحال میں پاکستان سمیت متاثرہ ممالک کو کورونا روکنے کیلئے چین کی پیروی کرنا ہوگی جس نے کم سے کم وقت میں اس پر قابو پانے کی مثال قائم کردی۔ پاکستان میں اس وقت تک پنجاب میں سب سے زیادہ لوگ کورونا سے متاثر ہوئے جس کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کے دوران چین سے آئے ہوئے ماہرین اور ڈاکٹروں کے ایک وفد نے چینی ماڈل کی روشنی میں نہایت مفید مشورے دیےہیں۔ چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا پر قابو پانے کیلئے پاکستان کو کم سے کم 28روز تک لاک ڈائون یقینی بنانا چاہئے اور اس کے بعد بھی صورتحال دیکھ کر اور محتاط انداز میں مرحلہ وار پابندیاں نرم کرنا چاہئیں۔ انہوں نے بتایا کہ عام تاثر کے برخلاف یہ وائرس گرمی میں بھی پھیل سکتا ہے اس لئے اس کے کم ہونے کی امید رکھیں مگر احتیاط کے ساتھ۔ کسی شخص میں مرض کی تشخیص ہو جائے تو اسے گھر میں رکھنے کے بجائے اسپتال یا قرنطینہ مرکز میں رکھنا زیادہ بہتر ہے۔ سماجی فاصلے کورونا سے بچائو میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بعض مریضوں میں کورونا کی عمومی علامات ظاہر بھی نہیں ہوتیں۔ پاکستان اس وقت جس مشکل سے دوچار ہے چین اس سے تقریباً نکل چکا ہے اس لئے چینی ماہرین کے مشوروں پر توجہ دینی چاہئے۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ ملک میں کورونا مریضوں کے علاج کی مکمل صلاحیت ہے نہ استطاعت۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر درست کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کورونا کا پھیلائو ہمارے صحت کے نظام کے لئے بڑا امتحان بن سکتا ہے۔ احتیاطی تدابیر سے غافل لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس مرض کے آگے بےبس ہو گئے ہیں اور وہاں غربت بڑھنے لگی ہے۔ پاکستان کے پاس تو اتنے مالی وسائل بھی نہیں۔ کورونا کا مقابلہ ہم احتیاطی اقدامات سے ہی کر سکتے ہیں۔