نصاب میں تبدیلی

March 25, 2013

گزشتہ دنوں دوباتوں نے مجھے بہت دکھی کر دیا۔ ہفتہ کی شام دفتر میں بیٹھا اپنا کام کر رہا تھاکہ ایک انجانے شخص کا فون آیا۔ وہ صاحب لاہور کے ایک پروفیسر تھے اور انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ حکومت پنجاب نے دسویں جماعت کی اردو لازمی کی نئی کتاب میں اسلام سے متعلق تقریباً تمام اہم مضامین اور نظموں کو نکال دیا۔ میں نے فوری طور پر بازار سے پرانی اور نئی اردو کی دسویں جماعت کی کتب منگوائیں تو مجھے یقین نہ آیا کہ کس کامیابی مگر دھوکے، دغا بازی اور عیاری کے ساتھ پاکستان کی اسلامی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی سازش کی جارہی ہے اور ہمیں کوئی خبر ہی نہیں۔ ہماری آنے والی نسلوں کو اسلام سے دور کر کے سیکولر سوچ کی فروغ کے لیے کیا گھناؤنا کھیل کھیلاجا رہا ہے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ”رب کائنات“، ”محسن انسانیت“، ”طلوع اسلام“، ”صدیقہ“، جیسے موضوعات کی نظموں کو کتاب کے حصہ نظم سے نکال دیا جائے گا جبکہ حصہ نثر سے ”حضرت عمر فاروق۔ عظیم منتظم“، ”نظریہ پاکستان“، ”فاطمہ بنت عبداللہ“ اور دوسرے اسلامی مضامین کو نئی کتاب میں کوئی جگہ نہ ملے گی اور یہ بھی کہ علامہ اقبال جیسے قومی اور اسلامی شاعرکو مکمل طور پر غائب کر دیا جائے گا۔ یہ سب کچھ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کے ماتحت ہوا۔ مجھے ایسا لگا جیسے کہ پنجاب میں انڈین کانگریس کی حکومت ہو۔ مگر کیا ہندستان میں کانگریس نے وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ وہ کچھ کیا ہوگا جو ہماری ”مسلم لیگ“ نیہمارے ساتھ کیا۔ اسی غم، دکھ اور غصہ کے ملے جلے احساسات میں میں نے اپنے اخبار کے لیے خبر بنائی اور بوجھل دل کے ساتھ گھر لوٹا۔ رات کو سونے کے لیے بستر پر لیٹا تو نیند کوسوں دور تھی۔ صبح نماز کے لیے اُٹھا تو بے چینی ویسی ہی تھی۔ اپنی بے چینی کو دورکرنے کے لیے کچھ دوستوں اور ہم خیال افراد کو صبح صبح فون کرکے جگا دیا کہ اب کیا کریں۔ اتوار کو صبح کوئی ساڑھے نو بجے لاہور سے سیکریٹری اطلاعات کا فون آیا اور مجھے بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے خبر کا نوٹس لیتے ہوئے نکالے گئے مضامیں اور نظموں کو دوبارہ کتاب میں شامل کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کے ساتھ تحقیقات بھی شروع کرا دیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ میں سیکریٹری اطلاعات کی باتیں سنتا رہا ۔ اس بات پر خوش تھا کہ چلیں اللہ نے مجھ سے ایک نیک کام لیا مگر میرا دل یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی اجازت کے بغیر کوئی ایسی بنیادی تبدیلی ہمارے نصاب میں کر سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے میں غلط ہوں مگر میرا اعتبار ایک ایسے سیاستدان سے اُٹھ گیا جس کو میں دوسروں سے بہتر جانتا تھا۔ شہباز شریف کی حکومت نے تو وہ کر دیا تھا جو مشرف جیسا امریکی غلام اور زرداری جیسا متنازعہ حکمران نہ کر سکا۔ شہباز شریف صاحب کا کہنا ہے کہ انہیں نصاب میں تبدیلی کا علم نہیں تھا اور اگر ان کا کہنا درست ہے تو یہ سازش کس نے کی وہ چہرے بے نقاب ہونے چاہئیں۔ ہمارے مذہب اور مستقبل سے کھیلنے کی کوشش کرنے والوں کو سزا ملنی چاہئے۔
اب میرا دوسرا دکھ سنیے۔حسیب احسن پاکستان کرکٹ کا ایک بڑا نام تھے۔ اُن کا حال ہی میں کراچی میں انتقال ہوا مگر طارق روڈ کے قبرستان میں اُن کے دفنانے کے لیے چالیس ہزار روپے کی رشوت دینا پڑی۔ یہ بات مجھے سینیٹر انور بیگ نے بتائی تو میرے ہوش اُڑ گئے۔ بیگ صاحب کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے کرکٹ ہیرو کے جنازے میں تو شرکت نہ کر سکے مگر قُل کے موقع پر وہاں موجود تھے تو ماضی کے مایہ نازکرکٹر حنیف محمد سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ پوچھنے پر کہ حسیب احسن کو کہاں دفنایا گیا توحنیف محمد نے انور بیگ کو انتہائی دکھ بھرے انداز میں بتایا کہ مرحوم کو طارق روڈ پر واقع قبرستان میں دفن کیا گیا جس کے لیے متعلقہ افراد کو چالیس ہزار روپے رشوت دینی پڑی۔حنیف محمد نے اپنے دکھ میں انو ر بیگ کو شامل کیا۔ بیگ صاحب نے اس دکھ کے بارے میں مجھ سے بات کی تو میں نے سوچاکہ انتہائی شرمناک واقعہ کا ذکر اپنے قارئین سے کیا جائے۔ بے شرمی، بے حسی اور بے غیرتی جیسے الفاظ اُس تکلیف کے اظہار کے لیے ناکافی ہیں جو کسی انسان کو اس واقعے سے پہنچ سکتے ہیں۔ کرپشن اس حد تک پہنچ سکتی ہے کہ اس ملک میں رہنے والوں کواب یہ بھی فکر کرنی پڑے گی کہ کیا انہیں مرنے کے بعد دو گز زمین بھی میسر ہو گی یا نہیں۔ پانچ سال پاکستان میں کرپشن، بدعنوانی اور نا اہل حکمرانی کرکے قومی خزانے کو خالی کرنے والوں نے عوام کے لیے جینے کا حق تو پہلے ہی چھین لیا اور اب حد یہ ہے کہ مرنے پر بھی قبر کی جگہ کے لیے رشوت لی جا رہی ہے۔ اگر ایسا دنیا بھر میں پہچانے جانے والے پاکستان کرکٹ کے ایک ہیرو کے ساتھ ہو سکتا تو پھر عام پاکستانی سوچ لے کہ اُن کو کیسا مستقبل دیا جا رہا ہے۔ اگر پاکستان کے سب سے پڑھے لکھے شہر پاکستان کو لینڈ مافیا کے حوالے کیا جائے گا تو یہی کچھ ہو گا۔ اگر کرپٹ لوگوں کے ہاتھ حکومت دی جائے گی تو پھر جان لیں جب بڑے رشوت لیں گے تو پھر چھوٹے سے چھوٹا اہلکار بھی لوگوں کے جائز کام کے لیے بھی رشوت وصول کرے گا۔ اسی شہر میں گورکن دفنائی گئی عورتوں کے میتوں کے ساتھ زیادتی کرتے پکڑا جاتا ہے۔ اسی شہر میں ایک بدمعاش گروہ اپنے مخالفین کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اور مارے جانے والوں کے سروں کو گلیوں میں فٹبال کی طرح ٹھڈے مارے جاتے ہیں۔ یہیں ہر روز درجنوں افراد کو موت کی گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور کوئی کاروبار کرنے والا بھتہ خوروں سے محفوظ نہیں۔مگر اس سب کے باوجود عوام کے پیسے سے سندھ کی خدمت کرنے کے اشتہارات چلائے جا رہے ہیں۔ یہ کیسی خدمت ہے اس کا فیصلہ اب عوام کو کرنا ہے۔