تعمیراتی شعبہ گرتی معیشت کو سہارا دے سکے گا؟

April 13, 2020

عالمی معیشت کی طرح پاکستان کی معیشت بھی تیزی سے تنزلی کی جانب گامزن ہے جس نے تمام شعبۂ زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے جن میں صنعت و تجارت، امپورٹ، ایکسپورٹ، اسٹاک ایکسچینج، آئل اینڈ گیس، بینکنگ، انشورنس اور تعمیراتی سیکٹرز وغیرہ شامل ہیں۔ چند دنوں پہلے حکومت نے انڈسٹریل سیکٹر کو سپورٹ کرنے کیلئے مراعاتی پیکیج کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود صنعتی سرگرمیاں بحال نہیں ہو سکیں کیونکہ ملکی تجارت کا تعلق گلوبل ٹریڈ سے ہے، موجودہ حالات میں بیرونی خریداروں نے اپنے آرڈرز منسوخ یا ملتوی کردیے ہیں جس سے ادائیگیاں متاثر ہوئی ہیں، اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہونے کی وجہ سے روپے پر مسلسل دبائو بڑھ رہا ہے اور روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 168روپے کی سطح پر آگیا ہے۔ کراچی کے ممتاز صنعتکاروں کے وفد نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور ان کی ٹیم سے ملاقات کی اور کراچی میں ایکسپورٹ آرڈر کی فیکٹریوں کو چلانے کی درخواست کی تاکہ یومیہ اجرت اور دیگر فیکٹری ورکرز کا روزگار بحال ہو سکے۔ اس سلسلے میں میری کمشنر کراچی سے گفتگو ہوئی لیکن اس دوران ملک کے دو بڑے صنعتکاروں کی ملوں کو ایکسپورٹ آرڈرز کیلئے چلانے پر سخت ایکشن لیا گیا اور ان کی ملز بند کردی گئیں۔ میری تجویز ہے کہ صنعتکاروں کے ساتھ بیٹھ کر صنعتی لاک ڈائون کھولنے کیلئے SOPsطے کی جائیں۔کراچی پورٹس ملک کی مجموعی ایکسپورٹس کا 76فیصد کارگو ہینڈل کرتی ہیں جس میں ایکسپورٹ آرڈر میں کمی کی وجہ سے 22مارچ سے 3اپریل تک 31فیصد کمی آئی ہے۔ کسٹم کے ایک ڈیٹا کے مطابق 13دنوں میں مجموعی طور پر 19ہزار 625کنٹینرز کراچی پورٹ لائے گئے جن میں سے 6ہزار 935کنٹینرز بحری جہازوں کے انتظار میں پورٹ پر پڑے ہیں جو ملکی امپورٹس اور ایکسپورٹس میں واضح کمی ظاہر کرتا ہے۔ کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کے باعث زمینی راستے بند ہونے کی وجہ سے ملک کی مشرقی سرحدوں بھارت اور واہگہ بارڈر سے ایکسپورٹ مکمل بند ہے جبکہ افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کو چمن، طورخم بارڈر سے ایکسپورٹس بند ہیں۔ اسی طرح تفتان بارڈر بند ہونے کی وجہ سے ایران سے بھی تجارت بند ہے جبکہ مقامی اور بین الاقوامی ایئرلائنز آپریشنز بند ہونے سے بھی ملکی ایکسپورٹس بری طرح متاثر ہوئی ہیں جو بمشکل 15فیصد رہ گئی ہیں۔ ایئر کارگو سے ایکسپورٹ نہایت مہنگا آپشن ہوتا ہے جسے جلد خراب ہونے والی اشیا‘ فروٹ، سبزیوں اور سی فوڈ کیلئے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔حال ہی میں وزیراعظم نے تعمیراتی شعبے کی بحالی کیلئے ایک مراعاتی پیکیج کا اعلان کیا ہے جس میں زیادہ تر کنسٹرکشن شعبے کی نمائندہ تنظیم آباد (ABAD) کے دیرینہ مطالبات تھے اور اسے کنسٹرکشن انڈسٹری کیلئے ایمنسٹی بھی کہا جا رہا ہے۔ مراعاتی پیکیج کے مطابق رواں مالی سال جون 2020تک تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے اُن کا ذرائع آمدنی نہیں پوچھا جائے گا، سرمایہ کاری پر فکسڈ ٹیکس نافذ ہوگا جبکہ سیمنٹ اور اسٹیل انڈسٹری کے علاوہ تمام تعمیراتی شعبوں پر وِد ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ’’نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم‘‘ کیلئے 30ارب روپے کی سبسڈی اور رہائشی مکان فروخت کرنے والوں کو کیپٹل گین ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے جبکہ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو 90فیصد ٹیکس ریبٹ دیا جائے گا اور انہیں اس منصوبے میں سرمایہ کاری پر صرف 10فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ وزیراعظم کی اسکیم تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری، نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے اور کنسٹرکشن شعبے سے منسلک شعبوں کی بحالی میں تو مددگار ثابت ہو سکتی ہے لیکن اس کی کامیابی کیلئے ہمیں سستے مکانات کی طلب میں اضافہ کرنا ہوگا کیونکہ اس اسکیم میں تعمیراتی شعبے کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے لہٰذا سستے مکانات کی طلب اور اسے قابل قبول بنانے کیلئے اسٹیٹ بینک کو 7فیصد شرح سود پر ہائوسنگ قرضے (مورگیج) دینا ہوں گے۔

ماضی میں سفید پوش افراد اپنی ریٹائرمنٹ کی جمع پونجی سے کوئی مکان یا دکان خریدکر اُس کے کرائے سے اپنا اور فیملی کا گزر اوقات کر لیتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ایف بی آر، کنٹونمنٹ بورڈ، ڈی ایچ اے اور دیگر حکومتی اداروں نے بالخصوص کرائے پر دیے جانے والے مکانات اور فلیٹس پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی۔ کچھ سال قبل ایک سرکاری ادارے سے ریٹائر ہونے والے میرے پرانے قاری نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کی جمع پونجی سے ایک اسکیم میں ایک چھوٹا فلیٹ خرید کر کرائے پر دیا لیکن 6سال بعد متعلقہ بورڈ نے اُنہیں 2لاکھ روپے ماہانہ اور سالانہ 10فیصد اضافی کرائے کی بنیاد پر 12.5فیصد ٹیکس لگا کر 6سالوں کے 20لاکھ روپے کے بقایا جات کی ادائیگی کا نوٹس جاری کر دیا حالانکہ وہ اس فلیٹ پر 12.5فیصد سے پہلے ہی متعلقہ اتھارٹی کو ہر سال پراپرٹی ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور اپنا کرایہ انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کرکے اس پر 15سے 35فیصد ٹیکس بریکٹ کے حساب سے انکم ٹیکس بھی ادا کر رہے ہیں جو تقریباً 6لاکھ روپے سالانہ بنتا ہے جبکہ اس فلیٹ پر سندھ گورنمنٹ کے 3فیصد سروس چارجز اس کے علاوہ ہیں۔ہمیں تعمیراتی شعبے میں نئے مکانات کی طلب میں اضافے کے پیش نظر اس طرح کے چھوٹے سرمایہ کاروں پر ٹیکسوں کے اضافی بوجھ کو بھی کم کرکے ان سفید پوش افراد کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا۔