اب بہت گھبرانے کی ضرورت ہے

April 19, 2020

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں کورونا وائرس کی وجہ سے ایک بہت سنگین اقتصادی بربادی آن پڑی ہے۔ شاید ہم ایک ایسے بحران سے گزرنے والے ہیں جو ایک عالم نے ایک صدی سے نہیں دیکھا۔ پاکستان میں کورونا وائرس کو پھیلے ابھی گرچے چند ہفتے گزرے ہیں، آثار ایسے ہیں کہ اقتصادی بربادی اتنی ہی ہونے والی ہے جتنی 1928-30کے درمیان ہوئی تھی۔ سارے اعدادوشمار اسی طرف نشان دہی کررہے ہیں کہ صورت حال بہت سنگین ہوگی۔ ترقی یافتہ ممالک جیسے چین ،جرمنی اور امریکا میں بھی اقتصادی بحران ابھی سے آگیا ہے۔

پاکستان کی معیشت تو دو سال سے برے حال میں تھی، اوپر سے یہ کورونا وائرس اور اقتصادی آفت نے صورت حال بالکل تباہ کردی ہے ۔ وائرس کہ آنے سے پہلے ہی ہماری کل پیداوار یعنی جی ڈی پی کی رفتار صرف 2فیصد ہوگئی تھی اور ملازمتوں اور نوکریوں میں اضافہ کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ یہ حالات حکومت کی نا اہلی اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے اور آئی ایم ایف کی پالیسی اپنانے کا نتیجہ ہیں۔ اوپر سے کورونا وائرس۔ ایک مشکل سے گزارا کرتی ہوئی معیشت پر اگر آپ کورونا وائرس لگا دیں تو خود ہی سوچ لیں کہ کیا نتیجہ ہوگا؟واضح آثار سامنے آ چکے ہیں کہ پاکستان میں بدحالی اور اقتصادی بحران سنگین تر ہونے کو ہے۔

عالمی بنک نے بھی کہہ دیا ہے کہ اس سال ہماری معیشت صرف ایک فیصد بڑھے گی۔ یعنی نہ ہونے کے برابر۔ ایک اور بہت بڑا بوجھ جو معیشت پر پڑنے والا ہے وہ یہ ہے کہ نہ صرف بے روزگاری اور غربت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا بلکہ جو پاکستانی محنت کش خلیجی ممالک سے ہمیں زر مبادلہ بھیجتے آئے ہیں اور جن پر ہماری معیشت کا حد سے زیادہ انحصار ہے ، اس میں بھی انتہائی کمی آئے گی۔ جس زاویے سے آپ دیکھیں ،پاکستان کی معیشت بر بہت سخت بوجھ پڑے گا۔ شاید ہم نے اتنا برا وقت کبھی نہ دیکھا ہو جتنا اگلے چند ماہ میں آنے والا ہے۔اگرچے حکومت نے موجودہ بحران سے نمٹنے کے کچھ فوری اقدامات کیے ہیں، لیکن یہ ناکافی ہیں۔

کچھ لوگوں کو راشن اور چندا پہنچانا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے عوض پیسے فراہم کرنا ضرور اچھا قدم ہے ،لیکن ناکافی۔ اس سے کچھ لوگوں کو سیفٹی نیٹ تو ملے گا لیکن یہ غریب اوربے روزگار افراد کی تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہے ۔ بہت زیادہ ایسے مستحق افراد ہیں جو بی آئی ایس پی کے زمرے میں نہیں آتے۔ ان کا کیا ہوگا؟ وہ کس طرح کھائیں گے؟ کس طرح جیئں گے؟ حکومت کو اگر لاک ڈاون کرنا ہی تھا تو کم سے کم ایسا انتظام تو کرنا چاہیے تھا کہ ہر غریب اور بے روزگار فرد اور خاندان کو کچھ راشن، چندہ اور دیگر ضروری اشیا گھر بیٹھے مل جائیں۔

جہاں لاک ڈاون ضروری تھا وہاں یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ دیہاڑی دار طبقے کے پاس جمع پونجی نہیں ہوتی ،ان کا کیا بنے گا؟ یہ صورت حال حکومت کی بڑی ناکامی رہی ہے ۔ کورونا سے بھی بچانا ہے اور انسان کو زندہ بھی رکھنا ہے۔ میرے خیال میں حکومت گھبرائے نہ گھبرائے، ہمیں ضرور گھبرانا چاہیے۔