اپنی اپنی دیوارِ گریہ !

March 29, 2013

ایک سیاح اسرائیل کی سیاحت پر گیا۔ اس نے دیوارِ گریہ کے متعلق بہت سن رکھا تھا کہ یہودی وہاں جا کر زار و قطار گریہ کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں چنانچہ اس نے بھی وہاں جانے کی ٹھانی اور ایک راہگیر سے پوچھا کہ دیوارِ گریہ کہاں ہے؟ وہاں دیوارِ گریہ کو کچھ اور کہتے ہیں، چنانچہ راہگیر نے لاعلمی میں سر ہلایا۔ اس پر سیاح نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ وہاں جانا چاہتا ہے جہاں یہودی دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں، اس پر راہگیر نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے انکم ٹیکس کے دفتر چھوڑ آیا۔
ان دنوں ہم لوگوں نے بھی آہ و زاری کے لئے اپنی اپنی دیوارِ گریہ تعمیر کر رکھی ہے اور اس ضمن میں ہماری مذہبی جماعتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ان میں سے کسی کی دیوارِ گریہ ایران ہے اور کسی کی سعودی عرب ! ایک دیوارِ گریہ ہمارے جی ایچ کیو میں ہے جہاں صاحبانِ اقتدار گڑگڑا کر معافیاں مانگتے ہیں اور آہ و زاری کرتے ہیں تاہم سب سے بڑی دیوارِ گریہ واشنگٹن میں ہے۔ اگر وہاں سے معافی مل جائے تو سارے دلدر دور ہو جاتے ہیں، بصورتِ دیگر منزل دور ہو جاتی ہے۔ یہ وہ آستانہ ہے جہاں سے معافی ملتی ہے یا امپورٹڈ وزرائے اعظم اور وزرائے خزانہ ملتے ہیں۔ دراصل ہم سے وہ ایک سجدہ ادا نہیں ہوتا جو آدمی کو ہزار سجدوں سے نجات دلاتا ہے۔ ہماری آنکھوں سے عرق انفعال کے وہ قطرے نہیں ٹپکتے جو شانِ کریمی چن لیتی ہے اور نتیجہ یہ کہ ہم دردر دھکے کھاتے ہیں، اپنی اپنی دیوارِ گریہ پر حاضری دیتے ہیں لیکن اس سے صرف ہماری ذلتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہماری مثال تو اس سردار جی کی ہے جو ایک چھپڑ میں ہاتھ ڈال کر اپنی گری ہوئی چونی تلاش کر رہے تھے اور ساتھ دعا مانگ رہے تھے کہ یا اللہ میری چونی مل جائے۔ ایک دوسرے سردار کا اُدھر سے گزر ہوا اور اُس نے موصوف کو ڈانٹتے ہوئے کہا ”یہ تم نے کیا یا اللہ یااللہ لگائی ہوئی ہے واہ گرو کو مخاطب کیوں نہیں کرتے؟“ اس پر سردار جی نے بے نیازی سے اس کی طرف دیکھا اور کہا میں ایک چونی کی خاطر اپنے واہ گروہ کا ہاتھ چھپڑ میں نہیں ڈلوانا چاہتا“۔ ہماری قوم بھی چھپڑ کے کنارے بیٹھی ہوئی ہے اور اس نے اپنی گھٹیا خواہشات کے حصول کے لئے ان ٹھہرے ہوئے پانیوں میں ہاتھ ڈالا ہوا ہے، نہ اپنا ہاتھ ان پانیوں سے نکالتی ہے اور نہ اس سے مدد مانگتی ہے جس نے مدد مانگنے والوں کے لئے حوض کوثر کا وعدہ کیا ہواہے!
میں جب اقبال کو پڑھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ خدا نے کنول کا یہ پھول کن پانیوں میں اگایا ہے؟ گزشتہ رات کلیاتِ اقبال کا مطالعہ کرتے ہوئے میں ایک دفعہ پھر اسی نتیجے پر پہنچا کہ اقبال اپنی گری پڑی ہوئی قوم کو کھینچ کر اپنی سطح پر لانا چاہتا ہے لیکن قعر مذلت میں گرے ہوئے قوم کے سبھی طبقے اپنے سائز کا اقبال تلاش کرتے ہیں اور پھر اسے محفلوں میں لئے پھرتے ہیں۔ اقبال وہ جن ہے جس کا قد آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور جس کے بازو مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے ہیں، اسے دیکھ کر ہمیں اپنی کوتاہ قامتی کا احساس ہونے لگتا ہے چنانچہ ہم جنتر منتر پڑھ کر اس جن کو مکھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح پرانی داستانوں میں کوئی مکروہ جادوگر کسی خوبصورت شہزادے کو مکھی بنا کر بوتل میں قید کر دیتا ہے۔ اقبال ممولے کو شہباز سے لڑانا چاہتا ہے لیکن ممولوں کو چھوڑیئے، ہمارے جو شہباز ہیں وہ خود ممولے بنے ہوئے ہیں۔ اقبال ذہنوں کو کشادہ کرنا چاہتا ہے اس کا خیال ہے کہ دماغ کو کام کرنے کی اجازت دینی چاہئے لیکن ہم دولے شاہ کے چوہے بننے پر اصرار کرتے ہیں۔
اقبال کو ملا سے کیوں چڑ ہے؟ صرف اس لئے کہ وہ اپنے دماغ کو استعمال نہیں کرتا بلکہ اپنے سے بڑے ملا کی سند تلاش کرنے میں لگا رہتا ہے اور یوں اس کا ذہن کشادہ نہیں ہو پاتا۔
فقیہہ شہر کی تحقیر، کیا مجال مری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد
یہ کشادگی وہ ہے جس سے کوئی ایک طبقہ نہیں، قوم کے سبھی طبقے محروم ہو چکے ہیں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج سے پڑھی ہوئی کلاس بھی اختلافی بات پر سیخ پا ہو جاتی ہے اور یہی حال قوم کے دوسرے طبقوں کا ہے۔ ہم اختلافی رائے سن ہی نہیں سکتے۔ ہمارا ایک محدود نقطہ نظر ہے جو محدود خواہشات سے پیدا ہوا ہے جو اس کے منافی بات کرتا ہے وہ گردن زدنی قرار پاتا ہے۔ ہماری قوم دنیا کی شاید واحد قوم ہے جو پوری زندگی اپنا صرف ایک ہاتھ استعمال کرتی ہے دوسرے ہاتھ سے کھجلاتی رہتی ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ کھجلانے کے لئے دائیں ہاتھ کو اہمیت دیتے ہیں اور کچھ بائیں ہاتھ کو، چنانچہ خارش زدہ قوم دائیں اور بائیں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ سو ملک و قوم کی ترقی کیلئے ہم دونوں ہاتھ کیسے استعمال کرسکتے ہیں، ہمیں ٹنڈا کہلانے کا اتنا شوق کیوں ہے؟ جھگڑا تو لیفٹ رائٹ اور رانگ میں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی شخص پاکستان پر ایمان رکھتا ہے اور یہاں اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق فلاحی نظام نافذ کرنا چاہتا ہے تو اس سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں۔ اگر کسی شخص کے ذہن میں پاکستان کو خوبصورت بنانے کا کوئی نقشہ ہے اور ہمیں اس کی جزئیات سے اختلاف ہے تو بھی ہمیں اس کی بات پورے تحمل سے سننا چاہئے لیکن اگر کوئی شخص برصغیر کے مسلمانوں کی اس عظیم پناہ گاہ کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے تو اس سے مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ اخبارات اگر ایسے لوگوں یا ایسی جماعتوں کو پروجیکٹ کرتے ہیں تو وہ گناہِ عظیم کے مرتکب ہوتے ہیں، ایک شخص کتے کی زنجیر تھامے بازار سے گزر رہا تھا اس کے ایک واقف نے اسے روکا اور کہا ”یہ کتا مجھے خاصی گھٹیا نسل کا لگتا ہے؟“‘ کتے والے صاحب نے کہا ”نہیں، یہ بہت اعلیٰ نسل کا کتا ہے۔“ واقف کار نے نفی میں سر ہلایا اور کہا ”اے ڈاگ از نون بائی دی کمپنی ہی کیپس“۔
اب یہ کام قوم کا ہے کہ وہ دیکھے کہ اس کے گلے میں کس کا پٹا ہے۔ ہمارے حکمرانوں میں وہ لوگ بھی شامل رہے ہیں جو انگریز فوجیوں کو حریت پسندوں کی فہرستیں فراہم کرتے تھے، جس کے نتیجے میں برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ ڈیڑھ سو سال بعد اقبال اور قائد اعظم کی کوششوں سے ایک بار پھر ہمیں اس خطے میں مسلمانوں کی حکومت قائم کرنے کا موقع ملا خدا کے لئے اب ”غداروں“ سے ہوشیار رہیں۔ غدار صرف وہ نہیں جو پاکستان کو نہیں مانتا، غدار وہ بھی ہے جو حکومت میں آکر لوٹ مار کرتا ہے اور دھونس اور دھاندلی کا بازار گرم کر دیتا ہے۔ آنے والے انتخابات میں ہمیں ان سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ اس بار پاکستانی قوم اپنے غداروں کو معاف نہیں کرے گی، ملکی سلامتی کی سو فیصد ذمہ داری فوج پر عائد ہوتی ہے چنانچہ اگر ان کی موجودگی میں کوئی گڑبڑ ہوتی ہے تو اس کی ذمہ دار بھی فوج ہی ہو گی، خدانخواستہ اگر غیر ملکی سازشیں مقامی غداروں کے تعاون سے ہمارے ملک کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو یاد رکھیں پورے برصغیر میں کوئی ایسی دیوارِ گریہ نہیں ہے جس سے لپٹ کر ہم رو سکیں۔ شانِ کریمی بے غیرتی کے آنسو موتی سمجھ کر نہیں چنتی، انہیں کھولتے ہوئے پانیوں میں تبدیل کر دیتی ہے اور جہنم کے اس تالاب میں گناہ گار اور ان کی آنے والی نسلیں ابد تک قیام کرتی ہیں۔ وما علینا الا البلاغ۔