اُجڑے چمن میں اکیلا چنا بھاڑ جھونکے تو کیا

April 27, 2020

حضرت مولانا طارق جمیل (جو جنت کی رعنائیوںاور دوزخکی حشر سامانیوں کے بیان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے) نے احساس پروگرام کا ٹیلی میلا لوٹ لیا جو دراصل وزیراعظم عمران خان کی دیانتداری کی دھاک بٹھانے کے لئے سجایا گیا تھا۔

ٹیلی تھون کی اس خود ستائشی دوڑ میں ہمارے سب ہی چوٹی کے اینکر اِس زعم میںشامل تھے جیسے یہ محفل اُنہی کی امامت میںسجائی گئی تھی، لیکن اسٹیج پر دو معصوم بچیوں کو بطور اینکرز دیکھ کر وہ خوش گپیوںمیں مصروف ہو گئے۔

پھر وزیراعظم تشریف لائے اور اُنکے ہمراہ اُنکے روایتی اسٹیج سیکریٹری۔ وزیراعظم بڑے ریلیکسڈ موڈ میںتھے ،اُنہوں نے لاک ڈائون کرنے کیخلاف اپنے دلائل دہرائے اور سندھ کے وزیراعلیٰکے قدرے سخت لاک ڈائون کو خوفزدگی کا ردِعمل قرار دیا۔

وزیراعظم نے کروناوائرس سے نبردآزما ہونے کی اپنی لاچارگی کا اعتراف کرتے ہوئے لاک ڈائون کو وبا کے مراکز تک محدود اسمارٹ لاک ڈائون کی وکالت کی، جس میںآئی ایس آئی کا نگرانی کا نظام مریضوںکی نشاندہی میںمددگار ہوگا۔ لیکن جانے کیسے بغیر بڑے پیمانے کی ٹیسٹنگ کے شہریوںکی نگرانی کا یہ پُراسرار نظام وبا کے مریضوںکی نشاندہی کرے گا؟قومی اتحاد پر زور دینے کے باوجود وزیراعظم نے شہباز شریف اور آصف علی زرداری کی جماعتوںکی حمایت حاصل کرنے کی تجویز کو حقارت سے ردّ کرتے ہوئے کہا کہ فنڈ ریزنگ میں اُن کی شمولیت سے عطیات نیچے گر جائینگے۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ ٹیلی تھون میں عمران خان کے لئے ان کے منتخبہ دوستوں اور مداحوںکے توصیفی بیانات عطیات سے زیادہ تھے اور صرف 55کروڑ 75لاکھ روپے جمع کیے جا سکے۔ ٹیلی تھون کا کلائمکس یا اینٹی کلائمکس تب ہوا جب ہمارے محترم مولانا طارق جمیل جلوہ افروز ہوئے۔

اپنے معذرت خواہانہ خطاب میںآپ نے فرمایا کہ کروناوائرس عذابِالٰہی ہے اور اس سے لڑا نہیں جا سکتا اور لوگ رب العزت سے اپنے گناہوںکی گڑگڑا کر معافی کے طلبگار ہوں اور مرنے والے شہادت کا درجہ پائیں۔ کوئی بھلا پوچھے کہ دوا بنا موذی امراضکا علاج کیونکر ہو سکتا ہے اور گناہوں کی سزا پانے والے گنہگار مقامِشہادت کیوں پانے لگے؟ پھر اپنی رقعت آمیز دُعا میںمولانا نے نہایت تاسف سے ارشاد فرمایا کہ عمران خان کو اُجڑا چمن ملا ہے اور وہ تنہا ایماندار شخص اسے کہاںتک آباد کر پائے گا۔

افسردگی اور لاچارگی کے ماحول میں یہ احساس ٹھیلی تھون تمام ہوئی۔ اور ہمارے اینکر صاحبان مولانا کے میڈیا پر کذب بیانی کا بوجھ لئے سدھارے۔ اگلے روز ڈیجیٹل میڈیا کے لوگوں سے اپنے خطاب میںوزیراعظم نے رہی سہی کسر یہ کہہ کر پوری کر دی کہ میڈیا کو پیسہ لگا کر کرپشن کے دفاع کیلئے ڈھال بنایا گیا۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ سیاستدانوں کی بدنامی اور خود ان کی پذیرائی میڈیا ہی کی مرہونِمنت ہے۔

صرف مولانا طارق جمیل ہی نہیں، تقریباً تمام ادیان اور عقائد کے پیشوائوںنے کروناوائرس کے بارےمیں اپنی لاعلمی کے باعث طرح طرحکی بے پرکیوںپہ اصرار کیا اور اپنے معتقدین کو خطرے سے دوچار کیا۔ اس کے باوجود کہ تمام مسلم اکثریتی ممالک میں باجماعت نماز پر بندشیں عائد ہیں، ہمارے علما اور صدرِمملکت کے مابین ایک 20نکاتی فارمولے پر ’’اجماعِ اُمت‘‘ کا اعلان کیا گیا ہے جس پر ماسوا چند بڑی مسجدوںکے کہیں عملدرآمد نہیں ہو رہا۔

پاکستان کا صرف اسلام ہی نرالا نہیں بلکہ اس میں دینی تجربات بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ کوئی پوچھے صحت کے معاملات پر ڈاکٹروں کی رائے مانی جائے یا مولویوں کی؟ پاکستان کے ڈاکٹروں کی تمام تنظیمیںتمام صوبوں میںپریشان ہو کر میدان میںاُترنے پر مجبور ہوئیں اور اُنہوںنے لاک ڈائون نرم کرنے اور ہر طرحکے اجتماع کے خلاف سخت وارننگ دی ہے۔

اُنہوں نے مساجد میںباجماعت نماز کی ادائیگی کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تنبیہ کی ہے کہ اگر ڈھیل دی گئی تو کرونا کی وبا لاکھوںکو لپیٹ میںلے لے گی اور اُن کیلئے مریضوں کو سنبھالنا ناممکن ہو جائیگا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے لاک ڈائون نرم کرنے کے اقدام پر ردّعمل ظاہر کرتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ اگر سخت اور ضروری اقدامات نہ کئے گئے تو جولائی تک پاکستان میںوائرس کے شکار لوگوںکی تعداد دو لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ وزیراعظم کے لاک ڈائون ڈھیلا کرنے کے اگلے ہی روز وفاقی اور دیگر صوبائی حکومتوںنے حکومتِ سندھ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے لاک ڈائون میںتوسیع کا اعلان کیا ہےلیکن وزیراعظم کے لاک ڈائون مخالف بیانیے کے باعث لاک ڈائون اب تقریباً ختم ہو چلا ہے اور جو تھوڑا بہت ہو رہا ہے، وہ کورونا کے خوف سے۔

دُنیا بھر کے ماہرین وبا کے پھیلائو کو روکنے اور اس کا تریاق ڈھونڈ نکالنے کی فکر میںہیں جبکہ سیاستدانوںاور مذہبی پیشوائوںنے بہت کنفیوژن پھیلائی ہے۔ عالمی سطح پر صدر ٹرمپ اور پاکستان میںہمارے دیانتدار وزیراعظم اس میں سب سے آگے ہیں۔ یقیناً انسانی زندگی کو جو عظیم خطرہ درپیش ہے اس سے نپٹنا اول ذمہ داری ہے۔

جہاںدُنیا میں3ارب لوگوںکو صابن سے ہاتھ دھونے کی سہولت میسر نہیںاور بھوک کے ماروںکی آبادی اس بحران میںدُگنی ہونے کو ہے وہاںصحتِعامہ کی پھٹیچر حالت کی باعث لاکھوںلوگ لقمۂاجل بننے جا رہے ہیں۔

یہاںسوال یہ ہے کہ لوگوںکو وبا کے ہاتھوں مرنے دیا جائے یا جتنا ممکن ہے بچایا جائے۔ یہ بھی درست ہے کہ کورونا نے جو صحت عامہ کیلئے خوفناک صورتِحال پیدا کی ہے، وہ ہمارے ہی سیاسی و معاشی گناہوںکا ثمر ہے۔ اب پورے سرمایہ داری نظام اور اس کے انسان دشمن اور دھرتی شکن کردار کی قلعی کھل گئی ہے، اس کا سب سے زیادہ شکار محنت کش طبقات اور دست نگر پسماندہ ممالک ہونے جا رہے ہیں۔

رہی احساس پروگرام کیلئے خیرات کی اپیل، اس سے غریبوںکی غربت کے جہنم کا پیٹ بھرنے سے رہا۔ جب تک ملک کے معاشی و سیاسی نظام میںبنیادی تبدیلی نہیںکی جاتی لوگ یونہی مرتے کھپتے رہیں گے اور خدا سے اپنے ناکردہ گناہوںکی معافی کے طلبگار!