سگریٹ نوش مریضوں پر کوروناوائرس کے حملوں کی شدت کمزور

April 29, 2020

ایک سائنسی تحقیق کے تجزیہ سے یہ حیرت انگیز بات سامنے آئی ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد میں کورونا وائرس اتنے سنگین اور مہلک اثرات مرتب نہیں کررہا جتناکہ سمجھا جارہا تھا۔

برطانوی ٹیبلائیڈ کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے یونیورسٹی کالج لندن کے محقیقین نے 28 تجزیاتی پیپرز کا مطالعہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسپتال آنے والے کورونا مریضوں میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کا تناسب اندازوں سے بہت کم تھا۔

پبلک ہیلتھ کے ایک پروفیسر نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تمباکو نوشی اور کورونا وائرس میں کوئی غیرمرعی معاملہ ہے اور اس حیرت انگیز معاملے کے سامنے آنے کے بعد سائنسدان اس کا پتہ لگانے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔

برطانیہ میں کیے گئے ایک مطالعہ سے معلوم ہوا کہ وہاں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے جو مریض اسپتالوں میں لائے گئے ان میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کا تناسب صرف پانچ فیصد تھا، جو کہ ملک میں سگریٹ نوشی کرنے والے ساڑھے چودہ فیصد کا صرف ایک تہائی تھے۔

فرانس میں تو یہ تعداد چار گنا کم تھی جبکہ چین میں کی گئی ایسی ہی تحقیق میں یہ تعداد کل مریضوں کا 3 اعشاریہ 8 فیصد تھا، یاد رہے کہ چین کی آدھی سے زیادہ آبادی پابندی سے سگریٹ نوشی کرتی ہے۔

اس تجزیاتی تحقیق میں دو پیپرز ایسے بھی تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ سگریٹ نوشوں میں وائرس کی تشخیص ہوتی ہے تو امکان یہ ہوتا ہے کہ یہ بہت زیادہ بیمار ہونگے اور انھیں وینٹی لیٹشن کی ضرورت پڑے گی۔

البتہ تحقیق کاروں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ غالباً اسپتال مریضوں کی سگریٹ نوشی کرنے کے معاملے کو مناسب طریقے سے ریکارڈ نہیں کررہے ہیں، اور امکانی طور پر اسکی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اسپتال بہت زیادہ مصروف ہیں، مریض اس قدر بیمار اور لاغر ہوجاتے ہیں کہ وہ جواب دے نہیں پاتے یا پھر لوگ جھوٹے جوابات بھی دیتے ہیں۔

اب تحقیق کار معاملے کا پتہ چلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کیا سگریٹ نوشی اور کورونا میں کوئی ایسا معاملہ ہے کہ یہ سگریٹ نوش مریضوں پر وائرس اتنے شدید اثرات مرتب نہیں کررہا جتنے کہ یہ سگریٹ نوشی نہ کرنے والے افراد پر کررہا ہے۔

اس سے پہلے گزشتہ ماہ پانچ تحقیق میں بھی بالکل ایسے ہی نتائج سامنے آئے تھے، بظاہر سگریٹ نوشی اس حوالے سے خطرناک ہوسکتی ہے لیکن سگریٹ نوش مریضوں پر وائرس کے حملے زیادہ مہلک نظر نہیں آئے۔