سفید کوے (قسط نمبر 1)

May 10, 2020

عرفان جاوید ممتاز و معروف ادیب، افسانہ نگار، محقّق ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے برصغیر کی نام ور شخصیات پر اُن کے سوانحی خاکے ’’جنگ، سنڈے میگزین ‘‘ میں تواتر سے شائع ہوتے رہے۔ بعدازاں، ان خاکوں کے علاوہ کچھ دیگر خاکوں پر مشتمل اُن کی دو کُتب ’’دروازے‘‘ اور ’’سُرخاب‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آئیں اور ایسی مقبول ہوئیں کہ پھر اُن کے کئی ایڈیشن شائع کیے گئے۔

گزشتہ چند برسوں سے علمی وفکری موضوعات میں عرفان جاوید کی جُست جو اور فکروتحقیق کا حاصل، آئینہ تمثال مضامین کا مجموعہ ’’عجائب خانہ‘‘ ہے۔ یہ دنیا حیرت انگیز مظاہر و مناظر، موجودات و خیالات کا عجائب خانہ ہی تو ہے۔ سو، اس سلسلے کے کچھ منتخب مضامین اِس یقین سے قارئینِ جنگ کی نذر کیے جارہے ہیں کہ کئی اعتبار سے اپنی نوعیت کی یہ منفرد تحریریں یقیناً معلومات میں اضافے اور ذہنی تربیت کا سبب بنیں گی۔ ’’عجائب خانہ‘‘ سلسلے کی یہ چوتھی کڑی ’’سفیدکوّے‘‘ فکری مغالطوں اور حقائق کا چشم کُشا تجزیہ ہے۔ اس میں دِل چست واقعات، حیران کُن حقائق اورقائل کرنے والے عقلی دلائل ہیں۔ دیکھیے، قلم کار نے مختلف علمی و فکری موضوعات کا کیسے کیسے پہلوؤں، زاویوں سےجائزہ لیا ہے۔

(ایڈیٹر، سنڈے میگزین)

یہ سن 1994 کا نیویارک ہے۔ شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم کے سدِّباب کے لیے ماہرین سرجوڑے بیٹھے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں انھوں نے دیگر اقدامات کے علاوہ نہ صرف شہر میں پولیس کی نفری بڑھا دی ہے بلکہ مجرموں کو جلد ازجلد سزا دے کر جیلوں میں بھیجنا شروع کردیا ہے۔ اس کے باوجود جرائم میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ وہ اِسی فکر میں ہیں کہ یکایک شہر میں ہونے والے جرائم میں واضح طور پر کمی نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ صورتِ حال پولیس، انتظامیہ اور ماہرینِ جُرمّیات کے لیے خوش گوار حیرت کا باعث بنتی ہے۔ وہ اس قدر جلد جرائم میں کمی کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ جب اس رجحان کا گہرائی میں جا کر تجزیہ کیا گیا تو قدموں کے نشان امریکی سپریم کورٹ کے 1973کے بظاہر ایک غیرمتعلق مگر اہم فیصلے پر جاٹھہرے۔1973 میں جب امریکی عدالت ِ عظمیٰ نے رو بنام ویڈRoe v.Wade کے عنوان کے مقدمے میں اسقاط ِ حمل کو قانونی طور پر جائز قرار دیا تھا تو کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ ٹیکساس سے اُٹھنے والی پھوار کی پہنچ نیویارک تک ہوگی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ٹیکساس میں 1973 سے پہلے ایک قانون تھا کہ کسی بھی حاملہ خاتون کا تب تک ابارشن نہیں کیا جاسکتا، جب تک کہ حمل قائم رکھنے سے اس کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔1970 میں نورمامک کاروی (عرف جَین رَو) نامی عورت نے ڈیلاس کاؤنٹی کی سرکار کے خلاف ٹیکساس کی وفاقی عدالت میں ایک مقدمہ بنام ریاستی اٹارنی، ہنری وِیڈدائر کیا۔ اُس کا موقف تھا کہ وہ اکیلی ہے، متوقع ماں بننے والی ہے اور اتنی مالی سکت نہیں رکھتی کہ ٹیکساس سےباہر جاکر کسی ایسی جگہ اسقاطِ حمل کرواسکےجہاں اُسے قانونی تحفّظ حاصل ہو۔ چناںچہ اسے وہیں اسقاط کی اجازت دی جائے۔ مزید براں اس کا موقف تھا کہ ریاست کا متعلقہ قانون اس کی ذاتی زندگی اور پرائیویسی میں مداخلت کرتاہے۔ اس مقدمے نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔

بالآخر اس مقدمے کا فیصلہ 22 جنوری کو جَین رَو کے حق میں سات ججوں کی اکثریت سے آیا۔ فیصلے کی مخالفت دو ججوں نے کی۔ یوں ریاست میں اسقاطِ حمل کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اس کے مطابق رحمِ مادر میں موجود جنین کو قائم رکھنے یا ساقط کردینے کا حق ماں کو حاصل ہوگیا۔ نیویارک کے ماہرینِ جرمیات نے جب نوّے کی دہائی کے وسط میں جرائم کے رجحان میں کمی کا تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ اُن ٹین ایجر اور تنہا لڑکیوں نے اُٹھایا، جو غربت کی زندگی گزار رہی تھیں۔ اُن میں اکثریت ان لڑکیوں کی تھی، جو کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سےمعاشی استحکام حاصل کیےبغیر اورشادی یا باقاعدہ بندھن میں بندھنے سے پہلے ہی حاملہ ہوجاتی تھیں۔ اعدادوشمار بتاتے تھے کہ شہر کی سڑکوں اورگلیوں میں جرائم کی بہتات کے ذمّے دار عموماً ایسے لڑکے ہوتے تھے، جو ایسی ہی ماؤں کے بطن سے جنم لیتے تھے۔ متعلقہ قانون کے ٹیکساس، نیویارک اور پھردیگر ریاستوں میں نفاذ سے، اُن لڑکوں نے، جنھوں نےجوان ہوکر جرائم کرنے تھے، جنم ہی نہ لیا۔ یوں ستّر کی دہائی میں وہ پوری نسل ہی پیدا نہ ہوئی، جو نوّے کی دہائی میں جرائم کرتی۔ جب اعدادوشمار کا تجزیہ کیا گیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ وہ تمام ریاستیں جہاں متعلقہ قانون کا نفاذ ہوا اوربڑی تعداد میں اسقاط ِ حمل ہوئے وہاں پربھی دو دہائی بعد جرائم میں خاطر خواہ کمی نظر آئی۔ اِس واقعے کا بین الاقوامی شہرت یافتہ مفکّر، میلکم گلیڈویل نے اپنی کتاب ''The Tipping Point'' (نقطۂ آغاز،وہ معمولی واقعہ، جو اہم واقعات کا پیش خیمہ بنتا ہے ) میں ذکر کیا ہے۔ اس بات کا سہرا میلکم گلیڈویل کے سَر جاتاہےکہ اُس نےاپنی نصف کروڑ سے زائدتعداد میں بظاہر خشک معاشرتی، نفسیاتی اور انتظامی موضوعات پر فروخت ہونے والی نان فکشن کتابوں کے ذریعے لوگوں کو فارمولا اور سطحی خیال سے بلند کرکے جدّتِ فکر پرآمادہ کیا۔ یہی واقعہ ایک مختلف پہلو سے اسٹیفن اور لیوٹ نے اپنی عمدہ تصنیف ''Freakonomic" میں بھی بیان کیا ہے۔

اعلیٰ تہذیب یافتہ اقوام کا ایک خاصّہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اُن کے ماہرین کسی بھی مسئلے یا معاملے کا باریک بینی اور ٹھنڈے دماغ سے غیر جانب دارانہ اور ہمہ جہت تجزیہ کرتےہیں۔ وہ سطحی قسم کی سستی جذباتیت اور نعرےبازی سے پرہیز کرتے ہیں اور خُوب جانتے ہیں کہ جذباتی نعرے بازی اور شرم ناک خود نمائی فقط جہالت کی پردہ پوشی کےلیے کی جاتی ہے۔ ہرمعاملے کے کئی پہلو ہوتے ہیں اور کوئی ایک رائے قائم کرنےکےلیے تمام پہلوؤں پر نظر رکھنا اہم ہوتا ہے۔ ایک Sweeping Statement یاکسی خیال کو بلا تحقیق وتفتیش عام کردینا ذرائع ابلاغ میں عوامی سطح پر جذباتی پذیرائی تو حاصل کرپاتا ہے یا فلمی ناظر کو متاثر کردیتا ہے مگر حقیقی دانش وَر اورٹھوس دماغ کے طالب علم کی فکری تشفّی نہیں کرپاتا۔ بدقسمتی سے وطن عزیزمیں یہ رویہ عام ہے کہ دل کو متاثر کرتی کسی بھی غلط بات کو اس تواتر سے دہرایا جاتا ہےکہ پھر اُسے ہی حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے۔

مقامی دانش ور سوال کو توہین اور اختلاف کو سُبکی کے معنوں میں لے کر اپنی فکری سطحیت کو ازخود طشت ازبام کردیتا ہے۔ اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ ترقی یافتہ اور زیادہ تعلیم یافتہ اقوام میں مغالطے عام نہیں۔ وہاں بھی بےشمار غلط العام حقائق گردش میں رہتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ یہاں اُنھیں مِن وعن تسلیم کرلیاجاتا ہے، جب کہ وہاں اُن پرصحت مندانہ مباحث ہوتےرہتےہیں۔ یہاں اختلاف کرنےوالےکو عموماً دشنام وتہمت کی اذیت سہنا پڑتی ہے۔ تہذیب و شائستگی کےنمونے کےطور پردیکھا جائے تو حضرت عیسیٰ ؑکے دور سے قریباً پونے چار سو برس قبل پیدا ہونےوالے فلسفی، دانش وَر ارسطو کے لیکچرز کے دوران سوال وجواب کاسلسلہ ہمہ وقت جاری رہتا تھا مگر سب ہی شرکائے بحث حد ِادب میں رہ کر،دلیل سے گفت گو کرکے اورمخاطب کی بات کو تحمّل سے سُن کرثابت کرتے تھے کہ انسان واقعی اشرف المخلوقات ہے۔

ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ خیال کرتا ہے کہ معاشرتی تخریب کی ایک وجہ مذہب سے دُوری ہے۔ یقینا مذہب بہت اچھی تعلیمات دیتا ہے اور انسانی فلاح کا عمدہ ترین وسیلہ ہے۔ پر اس سے دوری کو معاشرتی خرابی کی واحد وجہ قرار دینا قرینِ انصاف نہیں۔ اگر یہی وجہ ہوتی تو مشرق وسطیٰ میں تیل کی دولت کی آمد کے بعد مشرقِ بعید اور مغرب کے عیاشی کے اڈوں پر سیکڑوں برس سے نسل درنسل مذہبی تربیت حاصل کرنے والے وہ امرا نظر نہ آتے، جو خرد و ہوش تو چھوڑ بیٹھتے تھے مگرصلوٰۃ وتسبیح نہ چھوڑتے تھے۔ اگر بات بڑھائی جائے تو فرقوں میں بٹی قوم، جس کا ہرفرقہ اپنے آپ ہی کو سچا سمجھتا ہے، ایک دوسرے سے ایسی مغائرت نہ رکھتا کہ ایک جانب سلیم عثمانی نے بیس پچیس ہزار معصوم شیعہ مار دیے تو دوسری جانب شاہ اسماعیل صفوی نے بیس ہزار سُنیوں کا قتل عام کیا۔ اگلے زمانوں کی تو بات چھوڑیں، شطرنج کی بین الاقوامی بساط پر دورِ حاضر میں فرقوں میں بٹی اُمت کی دشمنی قابلِ افسوس ہے۔ جب یورپ کلیسا کا پابند اور مسیحیت پر کاربند تھا، وہاں خون ریزی اورجرائم کی الم ناک داستانیں رقم ہوئیں۔

اب جب کہ وہ سیکولر ہوگئے تو جرائم کی شرح اُن اسکینڈے نیوین ممالک میں سب سے کم ہے، جہاں لوگوں نے اخلاقیات کو اپنا مذہب بنا رکھا ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کی مثال دی جاسکتی ہے، جہاں شرعی سزاؤں کے باعث جرائم خاصے کم ہیں، لیکن وہاں سےمعاشی خوش حالی اور حکم ران خاندان کی دہشت اٹھالیجیے پھر دیکھیے۔ نیکی کا جذبہ دل سے اٹھنا چاہیے اور جرم سےنفرت پورے وجود سے ہونی چاہیے اور یہ جوہرِ اخلاق کی وجہ سے ہونا چاہیے نہ کہ خوف سے۔ اس تمام تر سختی کے باوجود نہ تو سعودی عرب جرائم کے سدِباب کے حوالے سے بہترین دس ممالک میں آتا ہےاور نہ ہی ایران۔ وہ دس ممالک سویڈن، آسٹریا، سوئٹزرلینڈ، جرمنی، ناروے، ڈنمارک، آئس لینڈ، جاپان، لکسمبرگ اورسنگاپور جیسے لادین ممالک ہیں۔ مسلمانوں نے دین اسلام کو عقائد و رسومات کا مجموعہ تو سمجھ لیا، مگربدقسمتی سے آج تک اس کے بنیادی جوہر یعنی اخلاقیات کو صحیح معنوں میں اپناپائے اورنہ ہی اپنے فرائض کا احساس کیا۔ اخلاقیات کو اپنانے اور فرائض کے احساس کے لیے پندونصائح کے بجائے ایک عمدہ معاشرتی و معاشی نظام قائم کرنا دراصل ان کی عمارت کو بنیاد فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ ایک نعرہ یا جملہ بالعموم سُننے میں آتا ہے ’’اتنے ہزار لوگوں کو پھانسی دے دو، تو سارا نظام درست ہوجائے گا۔‘‘ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں سیکڑوں افراد کو سزائے موت دی گئی، جب کہ ہزاروں قیدی کال کوٹھڑیوں میں پھانسی کے منتظرہیں، لیکن کیا مجموعی طور پر معاشرے میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلف محسوس بھی ہوئی۔

اس مضمون کا مقصد بہت سی معروف و غلط العام باتوں کی وضاحت اوردرستی کے علاوہ قاری کو نئے،مختلف خیالات تسلیم کرنےاور ان پر سوچنے پہ آمادہ کرنا بھی ہے۔ اس میں ایک خاص ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے، ابتدائی تعارف میں واقعات و حقائق کے بعد دنیا بھر کے معروف مغالطوں کا تذکرہ اوراس کے بعد نفسیاتی و فکری نوعیت کے مباحث ہیں۔ اس مضمون کا عنوان’’سفیدکوّے‘‘ جدید لبنانی نژاد، امریکی مفکّر نسیم نکولس طالب کی کتاب "The Black Swan" (سیاہ ہنس) سے متاثر ہو کر رکھا گیا ہے۔ جس طرح ہنس یا بطخ کو عمومی طور پرسفید سمجھا جاتا ہے اور مغرب میں اس کی سفید رنگت کی مثال دی جاتی ہے، مگر سیاہ رنگ کے ہنس بھی دریافت ہوئے ہیں۔ اسی طرح برصغیر میں سیاہ رنگت کی مثال کوّے سے دی جاتی ہے۔ البتہ نہ صرف امریکا،یورپ،افریقابلکہ سرگودھا (پاکستان) میں بھی سفید رنگ کے کوّے دیکھے گئے ہیں۔ یوں کوّے کی رنگت کا روایتی تصوّر بدل گیا ہے۔ ویسے تو روسی محاورے میں سفید کوّا اس شخص کو کہتے ہیں، جو غیر معمولی صلاحیتوں اور خوبیوں کی بنا پر عامۃ الناس سے علیحدہ اور منفرد وجود رکھتا ہو، اور اُس شخص کو بھی کہتے ہیں، جو اپنی شخصیت کی کسی کجی یا خامی کی بنیاد پر معاشرے کا حصّہ نہ بن پاتا ہو۔ یہ محاورہ صرف استثنا کی جانب اشارہ نہیں کرتا بلکہ ہرحقیقت کے دوسرے رُخ کو بھی واضح کرتا ہے۔ اردو محاورے میں سفید کوّا اس شئےکو کہتے ہیں، جس کا وجود ہی نہ ہو۔ غالباً اس محاورے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

اب مذکورہ بالا واقعے ہی کی نظیر لے لی جائے۔ جب میلکم گلیڈویل اور دیگر پاپولر (عوامی) مفکرین نے یہ اور اسی نوعیت کے دیگر نظریات اور تجزیات پیش کیے تو ان پر ایک بحث چِھڑگئی۔ نتیجتاً چند حقائق کورَد کردیا گیا اوردیگر کئی نئے پہلو سامنے آئے۔ یہ ردّ و قبول ایک طرح کا عملِ تکثیف ہے، جس کے بعد کثافت دُور ہوکر ایک صاف ستھری نتھری تصویر سامنے آتی ہے۔ محققین کے ایک گروہ کاخیال تھا کہ نیویارک اور دوسرے شہروں، ریاستوں میں ہونے والے جرائم میں کمی کا تعلق اسقاطِ حمل کے مقدمے کے فیصلے کے نتائج سے جوڑا تو جاسکتا ہے، مگر اسے واحد وجہ قرار دینا درست نہیں۔ وہ ایندھن میں Lead یعنی سیسے کے استعمال پر پابندی کو بھی اس کی اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔ اس طبقے کا سُرخیل، معروف نفسیات دان اسٹیون پنکر ہے۔ اس کا موقف ہے کہ مذکورہ دَور میں بین الاقوامی سطح پر سنگین شہری جرائم میں واضح کمی نظر آنا شروع ہوگئی تھی اور یقینا اس کا تعلق فقط ایک امریکی عدالتی فیصلے سے نہ تھا۔

درحقیقت ایندھن میں موجود سیسہ براہ ِ راست انسانی دماغ پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ بچّوں کی سیکھنے کی صلاحیت متاثر کرتا ہے، ان کی ذہانت میں کمی کا باعث بنتا ہے اور ان میں جذباتی انتشار پیدا کرتا ہے، چناں چہ ایسے بچّے جو سیسے والے ایندھن سے براہ ِ راست متاثر ہوتے ہیں، لڑکپن اور جوانی میں سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے بیسویں صدی میں ذرائع مواصلات میں موٹرکاروں اور ایندھن سے چلنے والی سواریوں کا استعمال بڑھا، ویسے ویسے جرائم میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سیسہ نہ صرف ایندھن میں ہوتا تھا بلکہ یہ رنگ روغن کا بھی اہم جُزتھا۔ چناں چہ اس کے مضر اثرات کی آگاہی کے بعد بین الاقوامی سطح پر اس کے استعمال پر پابندی کی مہم چلی اور اسے ترک کردیا گیا۔ نتیجتاً1970 میں امریکا میں ہونے والی قانون سازی اور بعد ازاں دیگر ممالک میں اس پر پابندی کے مثبت نتائج نوّے کی دہائی میں نظر آنا شروع ہوگئے۔

معاشرہ انسانی بدن کی طرح ہوتا ہے۔ نفسیاتی دباؤ دماغ پر آتا ہے، پر اس کے منفی اثرات افعالِ معدہ پر مرتّب ہوتے ہیں۔ یک دم حادثے یا صدمے کا مشاہدہ آنکھیں کرتی ہیں مگر دورہ دِل کو پڑتا ہے۔ چوٹ ریڑھ کی ہڈی پر آتی ہے، پر بازو اور ٹانگیں کام کرنا چھوڑجاتے ہیں۔ اسی طرح معاشرے میں انتشار یا خرابی ایک جانب نظر آتی ہے، مگر بعض اوقات اس کی وجوہ کہیں اور تلاش کرنی پڑتی ہیں۔ جان گوٹ مین ایک معروف نفسیات دان اور رجحان شناس ہے۔ اُس کی شہرت کی وجہ اس کی ناقابلِ یقین حد تک درست ازدواجی پیش گوئیاں ہیں۔ وہ کسی ایک جوڑے کے ساتھ کچھ وقت گزار کر ان کی رفاقت پر پیش گوئی کردیتا ہے کہ آیا وہ آیندہ زندگی اکٹھے گزاریں گے یا ان میں طلاق ہوجائے گی۔ اس کی نوّے فی صد پیش گوئیاں درست ثابت ہوتی ہیں۔ اس نے ہزاروں جوڑوں سے سوالات اور ان کے درمیان بحث کا تجزیہ کرکے جو نتائج اخذ کیے، انھیں وہ ’’کشف کے چار گھڑسوار‘‘ کہتا ہے۔ یہ چار گھڑ سوار وہ چار عوامل ہیں، جو کسی جوڑے کے باہمی تعلقات کا تعیّن کرتے ہیں۔ یہ عوامل تنقید، حقارت، مدافعانہ رویہ اور بے اعتنائی ہیں۔

ان عوامل میں کسی بھی ازدواجی تعلق کےلیے سب سے خطرناک ’’حقارت‘‘ ہے۔ حقارت کے پس پردہ یہ احساس ہوتا ہے کہ ’’مَیں تم سے بہتر ہوں۔ مَیں تمھیں عزت نہیں دوں گا/گی۔‘‘جس جوڑے میں بے شک محبت ہو، مگر ایک شریک ِحیات میں احساسِ برتری یا اپنے آپ کو درست سمجھنے کا جذبہ عود آئے، جان گوٹ مین کو ان کا تعلق زیادہ دیرپا نظر نہیں آتا۔ وہ ایک نشست کی ملاقات اور گفت گو کے دوران آنکھوں میں یہ جذبہ پڑھ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جان گوٹ مین نے دریافت کیا ہے کہ ایسے لوگوں کو خطرناک بیماری ہو جانے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ وہ ایک صحت مندانہ تعلق کے لیے مشورہ دیتا ہے کہ بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کی خامیاں تلاش کرکے ان پر تنقید کی جائے، دونوں ایک دوسرے کی خوبیاں تلاش کریں اور ان کی تعریف کرنے کی عادت ڈالیں۔

میلکم گلیڈویل اپنی ایک اورکتاب "Blink" (پلک کی جھپک) میں ’’چَھٹی حِس‘‘ کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔ بعض اوقات ماہرین کی چَھٹی حس بغیر زیادہ تحقیق کیے انھیں کسی شے یا معاملے کے بارے میں درست فیصلے پر پہنچنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ دنیا میں تیزی سے پھیلتے ذرائع ابلاغ اورسوشل میڈیا کے باعث انسانوں کے باہمی رابطے بڑھ رہے ہیں۔Speed dating کے عمل کے علاوہ، جس میں اپنا شریک حیات چُننا ہوتا ہے، دیگر بہت سے معاملات میں چَھٹی حِس کا کردار بھی بڑھتا جارہا ہے۔ بیسویں صدی تک انسان کی رسائی محدود تھی اور وہ ایک قصبے میں پیدا ہوکر وہیں وفات پاجاتا تھا، سو، لوگوں کو ان کے آباؤاجداد اور رشتے داروں کے حوالوں سے بھی جانتا تھا۔ (جاری ہے)