کم بولنے اور خاموشی کے فوائد

May 11, 2020

ہم بچپن سے ہی یہ نصیحت سنتے آئے ہیں کہ بلاضرورت ہرگز زبان نہ کھولو یعنی خاموشی اختیار کرو۔ مشہور عالم فلسفی و عالمِ دین مصلح الدین شیخ شیرازیؒ نے اپنی بین الاقوامی شہرت یافتہ کتاب گلستان میں اس موضوع پر مختصر مگر نہایت ہدایت آمیز واقعات اور حکایتیں بیان کی ہیں۔ شیخ سعدیؒ کی دونوں کتابوں یعنی بوستان و گلستان دنیا میں بےحد مقبول ہیں۔ درحقیقت دونوں کتب خزینۂ ہدایات ہیں۔ پرانے زمانے میں فارسی ہردلعزیز زبان اور ہندوستان کی سرکاری زبان تھی، ہمارے بھوپال میں بھی بیگمات کے زمانے تک فارسی سرکاری زبان تھی۔ آئیے دیکھیے کہ زبان بندی اور خاموشی کے فوائد کے بارے میں شیخ سعدیؒ مرحوم کیا کہتے ہیں۔ دراصل میں یہ باتیں اس لئے بھی لکھ رہا ہوں کہ ہمارے حکمراں اور سیاست داں غلط سلط باتیں دہرائے چلے جاتے ہیں اور عوام اور سامعین کو بیزار کردیتے ہیں۔

’’(1)میں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ مجھے جو بات کرنے سے روکا گیا ہے (یا میں رک گیا ہوں) تو اس اختیار کے باعث ہے کہ اکثر اوقات اتفاقاً اچھی اور بری باتیں منہ سے نکل جاتی ہیں اور دشمنوں کی نگاہیں برائی کے سوا کہیں نہیں پڑتیں۔ دوست بولا: ’’دشمن وہی اچھا ہے جو نیکی ؍اچھائی نہ دیکھے‘‘۔

(2)ایک تاجر کو ہزار دینار کا نقصان ہوا۔ اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ’’دیکھنا یہ نقصان کی بات کسی سے بھی نہ کرنا‘‘، لڑکا بولا ’’ابا جان! یہ آپ کا حکم ہے اسلئے میں کسی کو نہیں بتائوں گا لیکن میری یہ خواہش ہے کہ آپ اس (خاموش رہنے) کا فائدہ بتا دیں کہ اس کو چھپانے میں کیا مصلحت ہے؟‘‘ باپ بولا: ’’خاموشی اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں دو مصیبتیں نہ اٹھانا پڑیں‘ یعنی ایک تو سرمائے کا نقصان اور دوسرا ہمسایوں کی شماتت (استہزا، تضحیک)‘‘۔

(3)ایک عقلمند جوان فضیلتوں، ؍خوبیوں کے ہنروں سے بڑی حد تک بہرہ ور تھا اور اس کی طبیعت نفرت کرنے والی تھی۔ چنانچہ جب کبھی وہ دانشمندوں کی محفلوں میں بیٹھتا تو بات کرنے سے اپنی زبان کو روکے رکھتا، ایک مرتبہ اُس کے باپ نے اُس سے کہا ’’اے بیٹے! جو کچھ تجھے آتا ہے تو بھی کہہ د یا کر‘‘۔ جوان بولا ’’مجھے اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ مجھ سے ایسی بات پوچھ لیں جس کا مجھے علم نہ ہو اور یوں مجھے شرمسار ہونا پڑے‘‘۔

(4)حکیم جالینوس نے ایک بیوقوف کو دیکھا کہ اس نے ایک دانشمند کا گریبان پکڑا ہوا تھا اور اس (دانشمند) کی بےحرمتی کررہا ہے۔ (جالینوس نے یہ صورتحال دیکھ کر) کہا کہ ’’اگر یہ شخص (دانشمند) دانا ہوتا تو نادان کے ساتھ اس کا معاملہ اس حد تک نہ پہنچتا‘‘۔ (گویا اس دانشمند نے اس نادان سے کوئی بات یا تکرار کی ہو گی جس پر اُس نے اسے پکڑ لیا)۔

(5)سحبان وائل کو اس بنا پر فصاحت میں بینظیر کہا گیا ہے کہ وہ جماعت کے آگے ایک مدت تک باتیں کرتا لیکن (اس دوران میں وہ) کوئی لفظ دوبارہ استعمال نہ کرتا اور اگر اتفاق سے کوئی ویسا موضوع آجاتا تو وہ اسے دوسری عبارت (فقروں) سے بیان کرتا اور یہ انداز بادشاہوں کے ندیموں کے تمام آداب (طور طریقوں) میں سے ہے۔

ترجمہ اشعار: بات اگرچہ دلچسپ اور شیریں ہو اور وہ تحسین و تصدیق کے لائق ہو‘ (پھر بھی) جب تو نے ایک بار کہہ دی تو دوبارہ مت کہہ‘ اس لئے کہ لوگ جب ایک مرتبہ حلوا کھا لیتے ہیں تو دوبارہ نہیں کھاتے۔

(6)میں نے ایک دانشور کے بارے میں یہ سنا کہ وہ کہا کرتا تھا کہ کوئی شخص بھی اپنی جہالت کا اقرار نہیں کرتا‘ سوائے اس شخص کے‘ کہ جب کوئی دوسرا بات کررہا ہوتا ہے تو اسکی بات ابھی ختم بھی نہیں ہو پاتی کہ وہ درمیان میں اپنی بات شروع کردیتا ہے:

ترجمہ اشعار: ایک صاحبِ تدبیر (دوراندیش) اور دانشمند و عقلمند اس وقت تک اپنی بات شروع نہیں کرتا جب تک دوسرے کی بات ختم نہ ہو جائے۔

(7)محمود (سلطان محمود غزنوی) کے چند غلاموں نے حسن میمندی سے پوچھا کہ ’’آج سلطان نے فلاں مصلحت کے بارے میں تجھ سے کیا کہا؟‘‘ وہ بولا ’’وہ تم سے بھی مخفی نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’سلطان جو کچھ تجھ سے کہتا ہے وہ ہم جیسوں سے کہنے کو جائز نہیں سمجھتا‘‘۔ (اس پر حسن نے) کہا ’’وہ مجھ سے اس لیے کہتا ہے کہ اسے مجھ پر بھروسا ہے کہ میں وہ بات کسی اور سے نہیں کہوں گا‘ لہٰذا تم اب کس لئے مجھ سے پوچھ رہے ہو؟‘‘

(8)میں ایک مکان خریدنے کے سلسلے میں فکرمند تھا، ایک یہودی نے مجھ سے کہا ’’میں اس محلے کے مالک مکانوں میں سے ہوں، تو اِس گھر کی جو بھی خوبیاں ہیں مجھ سے پوچھ۔ تو یہ مکان خرید لے کہ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے‘‘۔ اس پر میں نے اس سے کہا کہ ’’سوائے اسکے کہ تو میرا ہمسایہ ہوگا‘‘ (یعنی تیری ہمسائیگی میرے لئے بری ہوگی) ۔

(9)ایک شاعر چوروں کے ایک سردار کے پاس گیا اور اس کی مدح میں شعر کہے۔ سردار نے چوروں کو حکم دیا کہ ’’اس کا لباس اتار لو اور اسے گائوں سے نکال دو‘‘، (چنانچہ ایسا ہی کیا گیا)۔ بیچارہ (شاعر) غریب سردی میں ننگا جارہا تھا کہ کتے اس کے پیچھے لگ گئے۔ اس نے انہیں دوڑانے کے لئے ایک پتھر اٹھانا چاہا۔ زمین پر برف جمی ہوئی تھی (جس کے باعث وہ پتھر نہ اٹھا سکا) تنگ آکر بولا: ’’یہ (چور) کیسے غلیظ لوگ ہیں کہ کتے کو تو انہوں نے کھلا چھوڑ رکھا اور پتھر باندھ رکھا ہے‘‘۔ چوروں کا سردار کھڑکی میں سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے شاعر کی یہ بات سن لی‘ جس پر وہ ہنس پڑا۔ کہنے لگا کہ: ’’اے دانا مجھ سے کچھ مانگ‘‘۔ شاعر نے کہا کہ ’’اگر تو مہربانی فرمائے تو میرا لباس مجھے چاہئے۔ (عربی عبارت کا ترجمہ) ہم تیری عطا کے ساتھ کوچ کرنے اور چلے جانے پر خوش ہوں گے‘‘۔

ترجمہ شعر: آدمی دوسروں کی طرف سے خیر کا امیدوار ہوتا ہے۔ مجھے تجھ سے خیر کی تو کوئی توقع نہیں تو مجھے دکھ نہ پہنچا۔

چوروں کے سردار کو اس پر رحم آگیا، چنانچہ اس نے اسکا لباس واپس کردیا اور اس کے ساتھ کھال کی بنی ہوئی ایک قبا اور چند درہم بھی دے دیئے‘‘۔